ذمہ دار کون.. ہم یا ہمارے نیتا..؟


ڈاکٹر سلیم خان کی کسی کتاب میں پڑھا تھا. اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک بس تیار کی گئی. مسافر اپنے سفر کے لیے سوار ہو گئے. ڈرائیور اپنی سیٹ پہ بیٹھا، انجن اسٹارٹ کیا. کچھ دیر یوں ہی انجن چالو رکھا، پھر گیر لگانا شروع کیا تو ٹاپ گیر تک پہنچ گیا. اسپیڈومیٹر پہ دکھا رہا ہے کہ 80 کی اسپیڈ میں بس چل رہی ہے. ڈیزل کی سوئی بھی بتارہی ہے کہ ایندھن جل رہا ہے. چھ گھنٹے بس چلنے کے بعد کچھ مسافروں کی آنکھ کھلی، کھڑکی سےباہر دیکھا تو انہیں محسوس ہوا کہ بس تو وہیں ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی. ایک ماہر مسافر نے بس کا جائزہ لیا. پھر بتایا کہ بس کے نیچے تو جیک لگایا ہوا ہے.
پہیہ اپنی پوری اسپیڈ سے ناچ رہا ہے. ایندھن جل رہا ہے. لیکن بس مسافر جہاں بیٹھے تھے چھ گھنٹے بعد بھی وہیں ہیں.یہ بھی عجیب بات ہے کہ ڈرائیور کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ بس جہاں تھی وہیں ہے کیونکہ وہ کسی اور دھن میں مست تھا. اس نے خود سے احساس بھی نہیں کیا کہ آس پاس سے اندازہ کرے کہ جگہ تبدیل نہیں ہورہی ہے تو آخر ماجرا کیا ہے. جب مسافروں نے بتایا تب بھی وہ غلطی ماننے کوتیار نہیں اور جواز پیش کررہا ہے کہ میں تو اسپیڈو میٹر پہ دیکھ رہا تھا کہ گاڑی کی رفتار دکھ رہی ہے.
گویا امیر سفر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ساری چیزوں کو درست کرے، ساری چیزیں صحیح جگہ پہ ہوں.
خواہ کسی ملک کا امیر ہو یا کسی شہر یا گاؤں کا. ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ سالہا سال تک ذمہ داری اٹھاتے ہیں گفتگو ہوگی تو باتیں ایسی کی شنگھائی بنائیں گے. لیکن عمل ایسا کہ شہروں کو بھی گاؤں جیسی کیفیت میں تبدیل کردیں. کہنے کو تو بیس لاکھ کروڑ. اس میں کتنے زیرو ہونگے یہ تو سمبت پاترا جیسے ماہرین ہی بتا پائیں گے. ایک عام مزدور جو پیدل جارہا تھا اس کو زبردستی بس میں سوار کیا گیا اور کرایہ بھی اصول کیا گیا. ہم نے سنا اور دیکھا خواتین نے اپنی پایل تک بیچ دیا. اچھا ہوا کہ پایل بچا کے رکھا تھا اگر پی ایم کیئر فنڈ میں دے دیا ہوتا تو کرایہ کا انتظام بھی نہیں ہوتا.
جب ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ ہماری اس پریشانی کا ذمہ دار کون ہے تو اللہ کا فرمان یاد آتا ہے.
اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جو پریشانیاں ہیں وہ انسانوں کی اپنی کمائی ہوئی ہیں. الیکشن میں ہم نے دیکھا ہے. گاؤں کی عوام کو تو جانے دیجئے یونیورسٹیوں کے طلبہ یونین کے انتخابات میں بھی لوگ عجیب و غریب بنیادوں پہ ووٹ دیتے ہیں. عام انتخابات میں نیتاؤں کی تفصیلات آتی ہیں کہ کتنے نیتا زناکار ہیں، کتنے قاتل ہیں اور کن کن پہ کیا کیا جرم عائد ہیں. پھر بھی وہ انتخابات جیت کر ایم پی، ایم ایل اے اور نہ جانے کیا کیا بنتے ہیں. جو اثر و رسوخ والے ہوتے ہیں وہ اپنے مفادات کو آگے رکھتے ہیں اور اپنے ماتحتوں کے ووٹوں کا سودا کرلیتے ہیں اور جو آزاد ہوتے ہیں ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد اپنے ووٹوں کو ہزار پانچ سو کے عوض تو کہیں شراب اور ساڑی کے بدلے بیچ دیتے ہیں. ہم میں سے ایک بڑی تعداد نے نہیں لیا ہوگا لیکن جنہوں نے لیا انہوں نے ان کا بھی ووٹ خراب کردیا جنہوں نے اپنا ووٹ نہیں بیچا. اس ملک کا کون ایسا شہری ہے جس کو یہ نہیں پتہ ہے کہ ووٹ بکتے ہیں…؟ خریدار اور بیچنے والے ہمارے اور آپ کے درمیان موجود ہوتے ہیں لیکن ہم اور آپ یا تو اس میں شامل ہوتے ہیں یاخاموش تماشائی بنے رہتے ہیں. خاموش تماشائی بھی ظالم کا ساتھی مانا جائے گا.
آخر میں سوال وہی ہے کہ ہماری اس حالت کا ذمہ دار کون ہے..؟
ہم یا کوئی اور…؟

Please follow and like us:

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »