علامہ اقبال کہتے ہیںاپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگییعنی زندگی کے اسرار و رموز، اس میں چھپی ہوئی کامیابی اگر انسان حاصل کرنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ پہلے وہ اپنے آپ کو پہچانے. گوگل میپ پہ جب ہم کسی لوکیشن کو پانے کے لیے اس جگہ کا نام لکھتے ہیں تو دوری بتاتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ہم کس مقام پہ کھڑے ہیں. اپنے مقام کو جانے سمجھے بغیر ہم دوسرے کے مقام کو نہیں سمجھ سکتے ہیں.ابوداؤد میں ایک حدیث ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچانے. بچپن میں ہم تالاب میں نہانے کے لئے جاتے تھے تو پہلے گہرائی کا اندازہ کرتے. دوری کا اندازہ کرتے اور صلاحیت سے اس کا موازنہ کرتے پھر تیراکی کا ارادہ کرتے. اسی طرح زندگی کے ہر شعبہ کا معاملہ ہے.انسان کو اپنے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے. تبھی وہ کامیابی پا سکتا ہے بلکہ نبی کا فرمان ہی ہے کہ عقلمند شخص وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچانے.آج کے سماج میں عموماً لوگ خود کو پہچاننے سے زیادہ دوسرے کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں. اپنے اندرون میں جھانکنے کے بجائے دوسرے کے اندرون میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکامی ہاتھ آتی ہے جب اپنے آپ کو جانے سمجھے بغیر کسی میدان میں کودتے ہیں. جب کہ بچپن میں ہم نے دیکھا ہے چار لڑکے تالاب میں کودتے ہیں لیکن ہر کوئی تالاب کو پار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا. بعض تو اپنی صلاحیت کا اندازہ لگا کے عمل کرتے ہیں اور کچھ دور جاکے سمجھ جاتے ہیں کہ میں تالاب پار نہیں کرسکتا اور واپس ہوجاتے ہیں. بعض دوسرے ساتھی کے مقابلہ کے چکر میں تیراکی کی کوشش کرتے ہیں اور ڈوب جاتے ہیں.تعلیم کا میدان ہو یا تجارت کا یا کوئی اور شعبہ زندگی. ضروری کی ہے کہ اپنی صلاحیتوں کا اندازہ کریں. اپنی ذات سے معلوم کریں کہ کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں کرسکتے. کس میدان میں زیادہ بہتر کرسکتے ہیں. بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کا نام بھی ہے رتبہ بھی اور پیسہ بھی لیکن وہ اندر سے خوش نہیں. ایسی حالت میں بھی اس کو سکون میسر نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی خوشی کے بجائے دوسرے کی خوشی کے لیے کام کرتا ہے. کبھی بیوی بچوں کی خوشی سامنے ہوتی ہے کبھی والدین کی، کبھی گھر خاندان کی تو کبھی رشتہ داروں و دوست احباب کی. دوسروں کی خوشی کے لیے انسان رات و دن محنت کرتا ہے لیکن اپنے اندرون کو نہیں دیکھ پاتا ہے. نہ اپنی صلاحیتوں کو دیکھ پاتا ہے نہ سمجھ پاتا ہے. دوسرے کی کامیابی اور خوشی کو دیکھ کر اسی میں اپنی بھی کامیابی اور خوشی دیکھتا ہے. حالانکہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو سمجھے نہ کہ دوسرے کو.ایک بھکاری صندوق پہ بیٹھ کے سالہا سال تک بھیک مانگتا ہے. لوگ پیسے اور کھانا پانی دیتے ہیں. بھکاری کی زندگی بھی خوشی خوشی گزرتی ہے. ایک دن شدید ٹھنڈ میں اس کی موت واقع ہوجاتی ہے اور لڑھک کر صندوق سے گرجاتا ہے. اسے مردہ پاکر اس کا صندوق توڑا جاتا ہے تو اس میں بڑے قمیتی خزانے موجود ہوتے ہیں. اس بھکاری کے بارے میں آپ کیا کہیں گے…؟بھکاری جس صندوق پہ بیٹھ کے بھیک مانگتا تھا اگر کبھی اس صندوق کو کھول کے دیکھ لیا ہوتا تو اسے بھیک نہیں مانگنا پڑتا. انسان اپنے آپ کو سمجھ لے تو بہت ساری مصیبتوں اور مشکلات سے بچ سکتا ہے اور ایک کامیاب زندگی گزار سکتا ہے.ہمارے سماج میں دیکھا گیا ہے اکثر والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ انکی مرضی سے زندگی گزارے جو وہ کہیں وہ پڑھے اور جوکچھ کرنے کے لئے کہیں وہی کرے. والدین کے لیے ضروری ہے کہ بچے کی صلاحیت کو سمجھیں اور اسکی دلچسپی کا بغور مطالعہ کریں. لیکن اگر والدین نےخیال نہیں کیا تو کیا زندگی بھر آپ وہ کام کریں گے جس میں آپ کو دلچسپی نہیں ہے..؟ بلکل نہیں. عقلمندی اسی میں ہے کہ اپنی ذات کو پہچانیں اور اسی کے حساب سے فیصلہ کریں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے. نہیں تو تالاب کی طرح کسی کے مقابلہ اور کسی دوسرے کی خوشی میں تیراکی کرنے پہ ڈوب بھی سکتے ہیں یا عمر کے آخری مرحلے میں یہ سمجھ آیا کہ صندوق کھول کے دیکھ لیا جائے تو اس کا کچھ فائدہ نہ ہوگا….