شنکر کا تعلق ایک دیہی علاقہ سے تھا. اس آبادی کی اکثریت غیر مسلمین کی تھی. شنکر کے والد کی واحد ایک بنیے کی دوکان تھی. گاؤں کے لوگ وہیں سے سامان خریدتے. جو وہاں نہیں مل پاتا اس کے لیے شہر کا رخ کرتے. گاؤں کے لوگ پردیس جانا پسند نہیں کرتے تھے. اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کی اس بنیے نے گاؤں والوں کو ایسا چکر میں پھنسا رکھا تھا کہ وہ سب دال روٹی میں مست تھے. گاؤں کی پوری معاشی ترقی یا بحران اسی بنیے پہ منحصر تھی. پورے گاؤں کو سود کے جال میں پھنسا رکھا تھا. گاؤں والے مجبوراً اسی سے ضرورت کا سامان خریدتے اور جب اناج بیچنا ہوتا تو اسی کو بیچتے.
شنکر پڑھنے کی غرض سے گاؤں سے شہر گیا. وہاں اسکی مختلف صلاحیتوں کے لوگوں سے ملاقات ہوئی اور اس کے ایک کلاس فیلو اکمل سے اچھی دوستی ہوگئی. کچھ غیر مسلمین اسکو سمجھاتے کہ اکمل سے دور رہا کرو وہ مسلمان ہے. لیکن شنکر کو اکمل کا اخلاق و کردار، اسکی طرز زندگی، سوچنے کا انداز، بات کرنے کا طریقہ اور گفتگو کا سلیقہ بھا گیا. لوگوں کے لاکھ کہنے کے باوجود شنکر نے اپنا سب سے قریبی دوست اکمل کو بنایا.
اکمل کی خوبی یہ تھی کہ وہ اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرتا. اسے اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش کرتا. زندگی کے ہر پہلو سے اسلام کا تعارف پیش کرنے کے لیے فکر مند رہتا.
شنکر کو اکمل کی ہر ادا بہت پسند آتی اور دھیرے دھیرے وہ اسلام سے قریب ہوتا چلا گیا.
شنکر تعلیم مکمل کرکے اپنے گاؤں واپس چلا گیا. لیکن اس کی اپنے والد سے نہیں بنتی. وجہ یہ تھی کہ شنکر کے والد صرف اپنا بھلا سوچتے اور شنکر پورے گاؤں کے لئے فکر مند رہتا.
شنکر نے ایک دن اپنے والد سے کہا کہ آپ گاؤں کے سب سے مالدار شخص ہیں لیکن اگر اور بڑا امیر بننا ہے تو گاؤں والوں کو خوشحال کرنا پڑےگا. شنکر کے والد کو بہت غصہ آیا. ڈانٹ کر کہا ایسا ہر گز نہ سوچنا. ان کو غریب بنا کر رکھنے میں میں نے بڑی محنت کی ہے. تم تو میری پوری زندگی کی محنت پہ پانی پھیر دوگے.
شنکر نے اپنے والد کو سمجھایا. کہا آپ پورے سال میں سو ٹن دھان گیہوں خریدتے ہیں اگر ایک ہزار ٹن خریدنے لگیں تو آپ کتنا زیادہ کمانے لگیں گے. بنیے کو یہ بات تو پسند آئی لیکن یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہوگا؟
شنکر نے ایک بیج کی کمپنی سے رابطہ کیا تاکہ گاؤں کے کسانوں کو اچھی بیج فراہم کی جاسکے. مٹی کی جانچ کروایا اور پورے گاؤں کے لوگوں کو کھیتی کی بھرپور رہنمائی فراہم کیا. صرف دھان گیہوں کی کھیتی کرنے والے کسان مختلف چیزوں کی کھیتی کرنے لگے. گاؤں کے کسانوں کی پیداوار بڑھنے لگی. وہ خوشحال ہونے لگے اور انکی قوت خرید بھی بڑھنے لگی.
گاؤں میں کسی کے گھر میں فریج نہیں تھی. لیکن پیسے آئے تو انکو بھی اسکی ضرورت محسوس ہونے لگی. شنکر گاؤں کے ایک ایماندار جوان کو پارٹنرشپ میں فریج کی دوکان کھلوا دیا. دھیرے دھیرے گاؤں کے باہر آم کے باغ کے پاس ایک چوراہا آباد ہوگیا. ہر طرح کی دوکانیں، آرام و آسائش کے سارے سامان وہاں ملنے لگے. شنکر علاقہ کا سب سے بڑا آدمی بن گیا. بہن کو میڈیکل کالج میں داخلہ کروایا وہ ایک ڈاکٹر بن کے آئی تو گاؤں میں ایک میٹرنٹی نرسنگ ہوم شروع کیا. خود گاؤں کا پردھان بنا. بھائیوں کو بہترین تعلیم دلوایا. ضلع کی منڈی میں ایک جگہ حاصل کیا. ایک بھائی کو اس کام پہ لگایا کہ گاؤں کے کھیتوں سے سبزیاں حاصل کرکے ضلع کی منڈی تک پہنچائے. گاؤں میں ایک بہترین اسکول شروع کیا. تالابوں میں مچھلیاں ڈلوایا اور گاؤں کے لوگوں کو آزادی دے دیا جب جی چاہے تالاب سے مچھلی پکڑیں اور کھائیں. باپ لوگوں کو سود پہ پیسے دیتا تھا. شنکر نے ایک غیر سودی کریڈٹ سوسائٹی قائم کیا. گاؤں کو بے پناہ ترقی حاصل ہوئی. بہت سارے انعامات گاؤں کو حاصل ہوئے اور بہت سارے ریکارڈس کی کتابوں میں اس گاؤں کا نام درج ہونے لگا. اکمل نے ایک اخبار میں شنکر اور اسکے گاؤں کا نام پڑھا تو وہاں پہنچا. گاؤں کو دیکھ کے حیران ہوگیا. اسے یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ ہمارے ملک میں ایک گاؤں ایسا بھی ہوسکتا ہے.
قاسم علی شاہ کہتے ہیں کہ ایک کمپنی کے مالک نے کہا کہ میں کروڑپتی بننا چاہتا ہوں. کیسے ہوگا؟ انہوں نے کہا اپنے سبھی ایمپلائیز کو لکھ پتی بنادو آپ خود بخود کروڑ پتی بن جاؤگے.
سچائی یہی ہے. اگر ہم دوسروں کی خوشحالی کے بارے میں سوچنا شروع کردیں تو ہم خود بھی خوشحال ہو جائیں گے…..
اللہ کو یہ ادا بہت پسند ہے. اس لئے ایک دوسرے کے لیے معاون و مددگار بنیں