انسان کا کسی دوسرے انسان یا چیز یا حالات کے خلاف جو رد عمل ہوتا ہے وہی رویہ کہلاتا ہے. کبھی یہ منفی ہوتا ہے کبھی مثبت. منفی کو پہلے اس لئے لکھا کہ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں منفی رویہ رکھنے والے لوگ زیادہ ہیں. منفی رویہ کے افراد مثبت رویہ والا فرد بنانے کے لئے موٹی موٹی کتابیں لکھی گئی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی. بڑے بڑے نامور کوچ پیدا ہوئے جن کے پروگرام میں شامل ہونے کے لیے لوگ ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں.جیف کیلر نے ایک کتاب لکھا ہے جس کا نام ہے”Attitude is every thing”اس کتاب کے عنوان سے ہو سکتا ہے کچھ لوگ اتفاق نہ کرتے ہوں اور کچھ لوگوں کو اتفاق ہو. دوسرے خیال والے لوگوں کے ساتھ مجھے بھی شامل کرلیں.رویہ کی اہمیت اس لئے اس قدر ہے کہ انسان کی خوشی و مسرت بھری زندگی کا انحصار اسی پہ ہے. اس کو ایک مثال سے سمجھ لیں.ایک کمپنی میں دو لوگ جاب کرتے ہیں. ایک مثبت رویہ کا شخص ہے دوسرا منفی رویہ کا. دونوں لنچ بریک میں کینٹین گئے. دونوں نے ویٹر سے پانی مانگا. ویٹر آدھا آدھا گلاس پانی لایا. مثبت رویہ رکھنے والا اسکو مسکراہٹ بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے. ویٹر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتا ہے ماشاء اللہ گلاس آدھا بھرا ہوا ہے. دو گلاس پانی لے لیتا ہے. منفی رویہ کا شخص اسی گلاس میں آدھا بھرا ہوا پانی دیکھ کے ویٹر کو غصہ میں ڈوبی آنکھ سے دیکھتا ہے. تیز آواز میں کہتا ہے یہ تو آدھا خالی ہے. جاؤ اس کو بھر کے لاؤ. اب ویٹر واپس جائے گا. اس شخص کو اندر ہی اندر برا بھلا کہے گا. دوسری طرف ان کی پیاس میں مزید اضافہ ہوگا اور وقت کا ضیاع بھی. پہلا شخص خوشی خوشی چائے پانی پیکر واپس اپنی ڈیوٹی پہ پہونچ گیا دوسرا شخص کمیاں اور خامیاں نکالنے میں تاخیر سے آفس پہنچا. وہاں باس موجود انتظار کررہا تھا. پہنچتے ہی ڈانٹ سنائی اور پہلے شخص سے کچھ سیکھنے کی نصیحت کرگیا. پانی سے آدھے بھرے ہوئے گلاس کو دیکھکر آپ بھی اگر یہ سوچتے ہیں کہ یہ آدھا خالی ہے تو اپنے رویہ کو تبدیل کریں. اسکو مثبت نظریہ سے دیکھیں.منفی رویہ اور طرز فکر بہت خطرناک ہوتی ہے. یقین کریں منفی رویہ کا شخص چھوٹے چھوٹے کام کے بارے میں سوچتا ہے یہ مجھ سے نہیں ہو پائے گا. جب کہ مثبت رویہ کا فرد بڑے سے بڑے کام کو کہتا ہے یہ میں چٹکی بجاتے ہوئے کرلونگا. منفی رویہ کا شخص صرف خامیاں نکالتا پھرے گا جب کہ مثبت فکر کا شخص اچھائیوں کی نشاندہی کرےگا. منفی فکر کا شخص کسی مہم میں صرف مسائل کو بیان کرےگا جب کہ مثبت فکر کا شخص حل کی تلاش کریگا. منفی فکر کا شخص دن و رات ان چیزوں کے بارے میں سوچے گا جو وہ نہیں پاسکا. مثبت فکر کا شخص ان چیزوں پہ اللہ کا شکر ادا کرے گا جو اس کے پاس ہیں. منفی فکر کا شخص حدود پہ نگاہ جمائے رکھے گا جبکہ مثبت فکر کا شخص امکانات کو دیکھے گا.بچپن میں دماغ کی کھڑکی صاف ستھری ہوتی ہے. لیکن جیسے جیسے انسان بڑا ہوتا ہے اس کے آس پاس کے احباب، حالات، حوادثات اور ماحول وغیرہ دماغ کی اُس صاف ستھری کھڑکی کو گرد آلود کرتے ہیں. کبھی والدین ہوتے ہیں، کبھی دوست احباب، کبھی ٹیچر کبھی رشتہ احباب کے لوگ، کبھی کسی معاملہ کی ناکامی، کبھی کچھ شکوک و شبہات وغیرہ. ایک تقریر میں ایک صاحب بیان کررہے تھے کہ حوصلہ اس بچے سے سیکھئے جو چھ آٹھ ماہ کا ہوتا ہے چلنا چاہتا ہے لیکن گرپڑتا ہے. وہ کسی پہ الزام نہیں لگاتا. نہ کارپیٹ پہ نہ زمین پہ نہ کسی اور پہ الزام دھرتا ہے بلکہ پھر سے اپنی توانائی لگاتا ہے. اس لئے آپ کو آج کسی انٹرویو میں اگر سلیکٹ نہیں کیا گیا تو حوصلہ نہ ہارئیے بلکہ اپنی توانی کو یکجا کیجئے اور اگلے انٹرویو میں شامل ہوئیے.حوصلہ مندی کی یہ مثال بجا ہے. لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ چھ آٹھ ماہ کا بچہ جب گرجاتا ہے تو اسکو دو باتیں سنائی نہیں جاتی ہیں. بلکہ سب لوگ کہتے ہیں شاباش. کوئی بات نہیں. پھر سے پھر سے. وہی بچہ انجینئر بن کے جب میدان عمل میں آتا ہے تو وہ بھی اسی چھٹے بچے کی طرح ہوتا ہے. لیکن والدین سوچتے ہیں اپنا پی ڈی سی چیک تیار ہے اور جب وہ پہلے انٹرویو میں ناکام ہوتا ہے تو بیٹے کو چار بات سناتے ہیں. یہی وہ موقع ہوتا جب والدین کا منفی رویہ بچے پہ اثر انداز ہوتا ہے.یہ بات جان لینے کی ہے کہ آپ پورے معاشرہ کو کنٹرول نہیں کرسکتے ہیں لیکن اپنے رویہ کو تو کنٹرول کرسکتے ہیں. دوسروں کی سوچ منفی ہونے کا بہانا بنانا مناسب نہیں ہے بلکہ اپنی سوچ کو مثبت کرنا ضروری ہے. ہمارا رویہ ہی وہ مخفی طاقت ہے جو چوبیس گھنٹے اچھے یا برے کی تمیز کرتا ہے. چیزیں اچھی یا بری ہماری سوچ پہ منحصر ہیں.سماج، ماحول، دوست احباب، رشتہ دار، استاد اور والدین وغیرہ پہ الزام دھرنے کے بہانوں سے باہر نکلیے. مثبت سوچ و فکر اور مثبت طرز عمل کے ساتھ میدان میں کو دئیے. کامیابی آپ کا انتظار کررہی ہے. یقین جانیں کہ کامیابی اور ناکامی آپ کی سوچ پہ منحصر ہے. آپ وہی بنتے ہیں جو سوچتے ہیں. وہی حاصل کرتے ہیں جس کے بارے میں دماغ کو مصروف رکھتے ہیں. اگر آپ اپنے رزلٹ کے بارے میں سوچیں گے تو اپنی پڑھائی پہ دھیان دینگے. ایسا اس لئے ضروری ہے کہ صرف سوچ سے رزلٹ نہیں بدلتا بلکہ عمل ضروری ہوتا ہے. جس طرح کے خیالات آپ کے دماغ پہ راج کرتے ہیں اسی طرح کا دن آپ کا گزرتا ہے. اپنے منفی رویہ کو مثبت میں تبدیل کیجئے. اپنے آس پاس منفی خیالات والوں سے دور رہیں. روزانہ صبح اور سونے قبل مثبت فکر پیدا کرنے والے لٹریچر کا مطالعہ کیجئے. موٹیویشنل آڈیو سنئے. چند لمحوں یا چند دنوں میں تبدیلی نہیں آئے گی. اس کے لیے مستقل مثبت فکر اور مثبت عمل کی ضرورت ہوگی. لیکن یقین جانئے وہ دن دور نہیں جب آپ کے ناراض والدین بھی آپ سے خوش ہوجائیں گے. ناکامیوں کو بیان کرنے والا سماج کامیابیاں بیان کرنے لگے گا.سیرت نبوی کا وہ واقعہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے. “وہ مثبت رویہ ہی تھا کہ اللہ کے رسول صلعم پہ کوڑا پھینکنے والی بڑھیا اسلام میں داخل ہوگئی.”