ٹرین کا سفر، موسم بہت سہانا، رات جلدی سو گیا اسلئے صبح جلدی بیدار بھی ہو گیا، نیند میں خواب آرہے تھے اور خواب میں بڑے اچھے خیالات کہ اچانک ٹرین کی رفتار دھیمی ہو گئی. ٹرین اسٹیشن پہ رکی. ایک ادھیڑ عمر اپنے بیٹے کے ساتھ سوار ہوا.
دونوں میں اسٹیشن پہ ہی گفتگو شروع ہوئی ہوگی جو اب بھی چل رہی تھی. ان کی کچھ وقت کی تکرار سے معلوم ہوا کہ باپ بیٹے کل کسی شاپنگ مال میں کپڑوں کی خریداری کے لیے گئے تھے. بیٹے نے ایسے کپڑے اور جوتے پسند کئے جو باپ کی پہچ سے کافی دور تھے. باپ کے دو چار ماہ قبل بیٹے کی پسند کے کپڑے اور جوتے خریدنا مشکل نہیں تھا لیکن اب باپ کی معاشی حالت بیٹے کی خواہش کی برانڈیڈ چیزوں کی خریداری کی اجازت نہیں دے رہی تھی. کریڈٹ کارڈ، ڈیبٹ کارڈ اور نقدی ملاکر بھی پورے نہیں ہورے تھے. باپ اپنی مجبوری بتاکر بیٹے کی خوشی کو مدھم نہیں کرنا چاہ رہا تھا. اس لئے کسی اور مال میں چلنے کی گزارش کررہا تھا. بیٹے کو پسند نہیں آیا. وہ ناراض ہوگیا. کہا میری شادی میری زندگی کا سب سے اہم لمحہ ہونے والا ہے. لیکن آپ میرے پسند کا کپڑا بھی نہیں لے سکتے ہیں… باپ نے کہا بیٹا بچپن سے میں نے آپ کی ساری خواہشات اور خوشیوں کا خیال کیا ہے. لاک ڈاؤن کی وجہ سے تجارت بالکل ٹھپ ہے. اب تو صرف ضروریات ہی کسی طرح پوری ہوجائیں وہی بہت ہے. لوگوں کو دیکھو کس طرح پیدل سفر کرکے گھروں کو گئے، ٹی وی میں دیکھو کتنے بھوک سے اور کتنے تو پیاس سے مرگئے ہیں. اللہ کا شکر ہے ہم کو وہ دن نہیں دیکھنا پڑا ہے. لیکن اتنے مہنگے کپڑے کی ضد مناسب نہیں ہے.
باپ سمجھاتے سمجھاتے نا امید ہوچکا تھا. آنکھوں میں آنسو چھپاتے ہوئے واش روم کی طرف نکل گیا. تبھی سائڈ کی کیبن سے ایک دوسرے باپ اور بیٹی کی آواز سنائی پڑی.
باپ اپنی بیٹی سے ندامت اور شرمندگی کا اظہار کررہا تھا کہ بیٹی میں تمہارے لیے اچھے جوڑے نہیں خرید سکا. بیٹی کہتی ہے ابو نئے جوڑوں کی ضرورت نہیں. امی نے جو اپنی شادی میں پہنا تھا. وہی میں بھی پہن لونگی. وہ کتنے خوبصورت ہیں. شادی میں قیمتی کپڑے نہیں پیار نظر آنا چاہیے. لوگ کیا کہیں گے. اس سے مجھے فرق نہیں پڑتا ہے. بلکہ مجھے تو اپنے والد کی معاشی صورتحال کو دیکھ کے فیصلہ لینا ہے. ابو مجھے تو بھائی پہ فخر محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی شادی کے اخراجات خود اٹھا لئے. مجھے آپ نے ٹیوشن پڑھانے کا موقع دیا ہوتا تو میں بھی اتنے پیسے تو کما لیتی کہ میری شادی کا بوجھ آپ پہ نہیں پڑتا. باپ کہتا ہے بیٹی آپ کسی اور کی امانت ہو. بس خدا کرے پوری امانت کے ساتھ میں آپ کو انکے حوالے کردوں. بیٹے کو تو میں نے اصرار کرکے کہا تھا کہ بارہویں تک میں نے پڑھایا. گریجویشن میں ایڈمیشن اور چھ ماہ کی تعلیمی فیس ادا کردی ہے. آگے کی تمام فیس آپ کو ٹیوشن کے ذریعہ یا اپنے مزاج کے مطابق پارٹ ٹائم جاب کرکے نکالنا ہے. شروع میں تو اسکو بہت خراب لگا، محلہ والے بھی مجھے لعن طعن کرنے لگے کہ اتنے پیسے کماکے کیا کریں گے.. جب بیٹے کی فیس تک ادا نہیں کرسکتے. اس وقت میں کسی کو کیا جواب دیتا. آج سب کو جواب مل گیا. بیٹا بھی کہتا ہے ابو نے بہت اچھا کیا تھا. محلے والے بھی اپنے بیٹوں کے سامنے تمہارے بھائی کی مثال پیش کرتے ہیں.
اتنے میں باپ واش روم سے واپس آتا ہے تو بیٹا من ہی من میں بول رہا ہوتا ہے. انکل مجھے بھی جواب مل گیا ہے… ہم اور آپ بھی اپنا اپنا جائزہ لیں کہ ہم کس مقام پہ ہیں. ضروریات کی تکمیل تو آسان ہے. خواہشات کی تکمیل بہت مشکل ہے. باپ کا پیار بیٹے کو تب سمجھ میں آتا ہے جب وہ باشعور ہوتا ہے. شعور کی عمر کو پہنچنا الگ بات ہے اور با شعور ہونا الگ بات ہے.
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ باپ نے بیٹے کے ساتھ جو کچھ کیا وہ اس کا ماضی ہے. لیکن بیٹا اپنے باپ کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے وہ اس کا مستقبل ہے. کیونکہ اولاد دیکھ رہی ہے کہ اسکا باپ اپنے باپ کے ساتھ کیسے پیش آرہا ہے.
بعض دفعہ ہوتا یہ ہے کہ ہم والدین کی ہی کمیوں خامیوں کو نکالنے میں اپنا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں. جب کہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ کل کو ہماری اولاد ہمارا جائزہ لے گی تو ہم کہاں کھڑے ملینگے؟