تعلیم کا تحفہ

ڈاکٹر محمد اسلم علیگ

کل میں نے ایک ویڈیو دیکھا۔ اس میں بتایا گیا کہ ایک شخص نے اپنا سارا سرمایہ بیچ کے دو کروڈ اکٹھا کیا اور اپنے ایک امریکہ میں مقیم دوست کو خط لکھا کہ اس رقم کا کیا کروں؟ ادھر سے جواب آیا جاؤ دنیا گھومو۔ اس نے واپس خط بھیجا اور سوال کو پھر سے تھوڑا وضاحت کے ساتھ پوچھا کہ ان پیسوں سے کیا کروں کہ میرا مستقبل خوشگوار ہوجائے۔ امریکہ میں مقیم دوست نے واپس وہی جواب دیا کہ جاؤ دنیا گھومو۔
معلوم ہے آپ کو وہ شخص کون ہے۔ ؟ وہ گھومنے والا شخص اویو کا مالک ہے۔
آپ اور ہم گھوم پھر کے او یو کے مالک بنیں یا نا بنیں لیکن گھومنے پھرنے سے، مختلف مقامات کے سفر سے بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کو ملتا ہے۔
میں بھی ایک سفر پہ تھا۔ ایک نوجوان سے ملاقات ہوگئی۔ میں خود کو متعارف کرایا اس نے بھی اپنا تعارف پیش کیا۔ تھوڑا مانوس ہوئے اور پھر زندگی کے اتار چڑھاؤ پہ ذرا تفصیل سےبات ہونے لگی۔
نوجوان کا نام اکمل تھا۔ اس نے بتایا کہ بچپن میں ہی اس کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس کی ماں ایک کالج میں کیشیئر کا کام کرتی تھیں۔ وہیں سے جو کچھ تنخواہ ملتی اسی سے گزر بسر ہوتا تھا۔
اکمل آگے بتاتا ہے جب اسے انجینئرنگ میں داخلہ لینا ہوا تو والدہ کی طبیعت خراب ہوگئی۔ والدہ نے کہا بیٹا تم کالج جاؤ، میں فیس کالج کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا دونگی۔ اکمل کالج پہنچا۔ کیشیئر سے درخواست کیا کہ چیک کرلیں میری فیس اکاؤنٹ میں آئی ہے کیا؟ کیشیئر نے چیک کیا تو معلوم ہوا کہ اکمل کے نام سے کوئی رقم اکاؤنٹ میں نہیں آئی ہے۔ اکمل غمگین حالت میں قریب میں کینٹین کی کرسی پہ بیٹھ گیا۔ تبھی ایک خاتون آتی ہیں ایک رسید دیتی ہیں جو اکمل کے ایڈمیشن فیس کی ادائیگی کی رسید ہوتی ہے۔ اکمل ان سے سوال کرتا ہے۔ یہ کیسے ہوا؟ وہ کہتی ہیں وہ سب جانے دو، ذرا مسکرادو، میں نے تمہارے پورے کورس کی فیس ادا کردی ہے۔ اکمل بہت خوش ہوتا ہے۔ گھر پہنچتا ہے تو دیکھتا ہے ماں رو رہی ہیں۔ ماں سے پوچھتا ہے ماں کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں۔ ماں اپنے آپ کو لعن طعن کرتی ہیں۔ کہتی ہیں میں ایک خراب ماں ہوں میں اپنے بیٹے کی فیس کا انتظام نہ کرسکی۔ اکمل کہتا ہے۔ نہیں ماں۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ آپ نے ایک آئرن لیڈی کا کردار ادا کیا ہے۔ اب تو آپ نے ہی پالا پوسا، اب تک تو آپ نے ہی ساری فیس ادا کی ہے. اس مرتبہ آپ نہیں کرسکیں تو کیا ہوا. اللہ نے ایک فرشتہ صفت انسان بھیج دیا. آپ نے ضرور کوئی نیکی کی ہوگی۔ جس کا آج مجھے بدلہ ملا۔ آپ پریشان نا ہوں۔ میرے پورے کورس کی فیس ایک خوتون نے ادا کردیا ہے۔ جو میرے کالج میں پروفیسر ہیں۔
ماں اللہ کے حضور سر بسجود ہوجاتی ہیں۔ دو رکعت نماز شکر ادا کرتی ہیں۔ دل ہی دل میں رو رہی ہوتی ہیں۔ کبھی مسکراتی ہیں۔
خدا خدا کرکے اکمل کی تعلیم مکمل ہوتی ہے۔ کنووکیشن کے روز اپنی ماں کو لیکر اکمل کالج پہنچتا ہے۔ جب اکمل کو اسٹیج پہ بلایا جاتا ہے۔ تو پورا ہال تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اُٹھتا ہے۔ اکمل نے کالج ٹاپ کیا تھا۔ اس نے چھ گولڈ میڈل حاصل کیے تھے۔ اکمل کو مائک پہ کچھ کہنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ وہ مائک پہ آتا ہے اور نم آنکھوں سےکہتا ہے۔ میری دو مائیں ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے پال پوس کے جوان کیا۔ ایک وہ جنکی مدد سے وہ گروجویٹ بن سکا۔ اکمل دونوں کو اسٹیج پہ مدعو کرتا ہے۔ جب دونوں اسٹیج پہ آتی ہیں تو اکمل کی ماں تو خوشی سے رو رہی ہوتی ہیں اور وہ پروفیسر جن کو اکمل اپنی دوسری ماں کہا وہ بھی رو رہی ہوتی ہیں۔ دونوں گلے ملتی ہیں۔ پروفیسر مائک ہاتھ میں لیتی ہیں۔ اکمل کی ماں کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔ کہتی ہیں یہی وہ خاتون ہیں جنہوں نے میری فیس ادا کی تھی تو میں گریجویٹ بن سکی۔ آج اللہ نے اس مقام پہ لا کھڑا کیا۔تینوں اسٹیج سے آتے ہیں ہال سے باہر نکل کر ایک دوسرے کی خیریت لیتے ہیں۔ محترمہ پروفیسر اکمل کی ماں سے اکمل کا رشتہ مانگتی ہیں۔ اس طرح اکمل کی پروفیسر کی بیٹی سے شادی ہوجاتی ہے۔ اکمل بتاتا ہے کہ ہم آج اپنی تنخواہ کا بیس فیص حصہ غریب اور ہونہار بچوں کی فیس ادائیگی پہ خرچ کرتے ہیں۔ اکمل کا ایک کالج ہے. اس میں اس کی بیوی پڑھاتی ہیں. امی کیشئر کی خدمات انجام دیتی ہیں. ساس پرنسپل ہیں. اکمل ایک بڑی آئی ٹی کمپنی میں جاب کرتا ہے. آئیے ہم اور آپ بھی نیت کریں۔ کم ازکم ایک غریب اور یتیم بچے کو تعلیم سے آراستہ کریں گے۔

Please follow and like us:

4 thoughts on “تعلیم کا تحفہ”

  1. بھائی دل کو چھو گیا ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ پوسٹ ❤️❤️❤️❤️❤️

  2. افتخار احمد

    ماشا اللہ، سبق آموز واقعہ اور آپ کا انداز بیان بہت اچھا ہے،

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »