ازقلم: ڈاکٹر محمد اسلم علیگ
دو دوست تھے. ایک ہی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے. بچپن میں ساتھ میں پلے بڑھے. تعلیم بھی ایک ساتھ ہوئی. جب یہ دس سال کی عمر کو پہنچے ایک دن لوگوں نے دیکھا گاؤں کا سب سے بڑا تالاب دونوں تیر کر پار کررہے ہیں. لوگوں کو بڑی حیرانگی ہوئی. ایک دن ایک چائے خانہ پہ بیٹھے چند لوگ ان کی اس حرکت پہ لعن تعن کررہے تھے کچھ ان کی اس حرکت کی تعریف کررہے تھے. کچھ لوگ مثبت نتیجہ نکالنے کی ادھیڑ بن میں تھے. کچھ منفی باتوں کاذکر کررہے تھے.
یہ دونوں جیسے جیسے بڑے ہونے لگے ان کا چرچا علاقہ میں عام ہونے لگا. گاؤں کے کسی تالاب یا کسی کونئے میں کسی کے گرنے یا ڈوبنے کی خبر ہوتی لوگ انہی دونوں کو پکارتے. دھیرے دھیرے یہ دونوں خوب مشہور ہوتے چلے گئے. مختلف مقابلوں میں خوب انعامات حاصل کئے.
دونوں کا ایک دوسرا شوق بھی خوب چرچے کا باعث بنا. ان دونوں کو بچپن سے سائیکلنگ کا شوق تھا. پھر بائک سواری کے انتہائی ماہر کھلاڑی بن گئے. ان دونوں کی حرکات کو دیکھ کر ایک بزرگ نے ان کے والدین کو مشورہ دیا. ان کو کسی اچھے ادارے سے گریجویشن کراؤ اور پھر نیوی میں بھیج دو. یہ دونوں بہت ترقی کریں گے اور اپنے گاؤں کا نام روشن کریں گے. والدین کو بات تو سمجھ میں آگئی لیکن کسی ادارے کے بارے میں نا معلومات تھی نا پڑھانے کے لئے اتنے پیسے تھے. دونوں کے والدین دہاڑی کرکے اپنا اور گھر والوں کا گزر بسر کررہے تھے. اس بزرگ کو چند ہی دنوں میں ان دونوں باتوں کا علم ہوگیا کہ ان کو تعلیم کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں اور انکے اخراجات برداشت کرنے کا بھی مسئلہ ہے. اس نے اپنی گاڑی میں دونوں بچوں کو اور ان کے والدین کو ساتھ لیا اور ایک مشہور ادارہ میں پہنچا. ادارہ کو دیکھ کر دونوں کے والدین حیران و پریشان تھے. ان کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا. بزرگ نے داخلہ کی کارروائی کو مکمل کیا اور دونوں کو ہاسٹل میں چھوڑ کر واپس ہوگئے. بزرگ نے ان کے اخراجات کی ذمہ داری اپنے سر لے لی. ان دونوں کو نصیحت کی کہ میں نے پیسے بڑی محنت سے کمائے ہیں ان کو برباد نا ہونے دینا. گاؤں کی عزت تمہارے کاندھوں پہ ہے. اگر تم نے محنت سے تعلیم حاصل کیا تو تمہیں ترقی کرتا دیکھ کر تمہارے پیچھے اور بچے آگے بڑھیں گے.
دونوں بچوں نے تعلیم اور اپنے ہنر میں خوب محنت کیا اور یونیورسٹی چیمپین بن گئے. ان کی رہنمائی اسی حساب سے کی گئی کہ نیوی میں جائیں اور اپنی خدمات سے گاؤں کا نام روشن کریں. ایسا ہی ہوا. دونوں نیوی میں گئے اور شعبہ کی سب سی اونچی پوسٹ سے ایک قدم نیچے تک اپنی خدمات انجام دئے. ابھی پینتالیس سال کی عمر تھی. ایک ایمرجنسی واقعہ پیش آیا. دونوں نے سمندر میں اپنی کشتی دوڑائی اور ایک ساحل پہ کشتی لگاکر بائک سے ایک پھنسے ہوئے انسان کو بچانے گئے اچانک ایک حادثہ کا شکار ہوگئے. دونوں کو ایسی چوٹ آئی کہ آگے کی پوری عمر وہیل چیئر پہ گزارنی پڑی. لوگ ملنے آتے تو ان کے تاریک مستقبل کی بات کرتے اور یہ دونوں اپنے شاندار ماضی کا ذکر کرتے. لوگ کہتے کہ مستقبل کی زندگی تو بہت تکلیفدہ ہوگی. یہ دونوں کہتے نہیں ایسا نہیں ہوگا.
دونوں نے کبھی منفی خیالات کو ذہن میں نہیں آنے دیا. اپنی کارکردگی کو سوچ کر خوش ہوتے اور کہتے جب تک ذہن و دماغ کام کررہے ہیں ملک و ملت کے لیے کام کرتے رہیں گے.
ایک نے پینٹنگ میں مہارت حاصل کرلی جس کی پینٹنگ لاکھوں میں بکنے لگی. دوسرے نے ٹیچنگ کو اپنا مشغلہ بنایا. ایک دوسرے کی مدد سے ایک بڑا ادارہ قائم کیا. اس میں ملک کے گوشے گوشے سے ایسے غریب ہنرمند بچوں کو وہ تلاش کرلاتے رہے اور ملک کےلئے مفید انسان بناتے رہے.
Irfan ur Raheman khan. iRamsumer baba ngr kawda peth Shanti ngr nagpur 2. irfanrk123@gmail.com
ہنسی خوشی ساتھ چلتے رہیں۔
اگر یہ دو نہ ہوتے اور صرف ایک ہی میں یہ صفات ہوتی تو بھی ایک کو حوصلھ نہیں ملتا۔ اس لیے ساتھ خوش رہنا ضروری ہے ۔
حوصلہ افزا مضمون ہے؛ اللہ آپ کو اور زور قلم سے نوازے –
شکریہ۔