بچوں کو وژنری بنائیں

از: ڈاکٹر محمد اسلم علیگ

اسکالرس کی ایک بڑی تعداد نے وژن پہ لکھا ہے۔ یوٹیوب پہ اس عنوان سے ویڈیوز مل جائیں گی۔ زندگی میں کچھ بننے کیلئے بڑا وژن رکھنا اور بڑے خواب دیکھنا بہت ضروری ہے۔
اگر ہمیں منزل کا پتہ ہی نہیں،تو سمجھئے سفر اندھیرے میں چل رہاہے، کہاں پہنچے گا کچھ پتہ نہیں۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ خواب کب دیکھنا شروع کرے۔؟ چودہ پندرہ سال کی عمر میں بڑے خواب دیکھنا شروع کر دینا چاہئے۔ یہ وہ عمر ہوتی ہے جس میں ایک بچہ بائک رائڈنگ، گیمنگ اور مختلف طرح کے خرافات میں وقت گزار دیتا ہے۔ والدین اور سوسائٹی کو چاہئے کہ بچوں کو وژنری بنائیں۔ انکو بڑے خواب دکھائیں۔ انکو بتائیں بیٹاپانچ سال کی عمر میں تم شدید بیمارہوگئےتھے تو تم کو لیکر ہمیں پچاس کلو میٹر دور علاج کے لئے جانا پڑا تھا اگر تم ڈاکٹر بن کے یہاں ڈسپینسری کھول لو توجو پریشانی تمہارے باپ نے اٹھائی ہے اس سے آنے والے دنوں میں بہت سے والدین بچ جائیں گے۔ ڈاکٹر بطور مثال ہے۔ بچہ کے مزاج اور دلچسپی کے حساب سے اسکا وژن طے کرنا ہوگا۔ اکثر دیکھا گیا ہے ایک بچہ غلطی کرتا ہے یا غلط رخ پہ جارہا ہوتاہے تو معاشرہ پوری غلطی اس کے والدین پہ ڈال دیتا ہے جبکہ پورا معاشرہ اس کو بگاڑنے میں کردار ادا کرتا ہے۔ معاشرہ کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ سوسائٹی کے ایک ایک بچے کو وژنری بنائیں۔ ان کو بتائیں کہ بیٹا جب ہمارے پاس وقت تھا تو ہم نے بھی فالتو کاموں میں وقت ضائع کردیا اب ہم کو گھر گرہستی سے ہی فرصت نہیں ہے کہ کچھ بڑا سوچیں۔ پہلی تاریخ سے لیکر مہینہ کی آخری تاریخ تک مسائل کا ایک سلسلہ لگا رہتا ہے ان سے نمٹنے میں پورا ماہ نکل جاتا ہے۔ لیکن تمہارے پاس ابھی وقت ہے۔ نا بیوی ہے نا بچے ہیں۔ نا والدین تم سے کسی طرح کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ ابھی تمہارا وقت اپنا ہے۔ اس کو یہاں وہاں ضائع نا کرو۔ کالج میں ہو تو پڑھولکھو اور صلاحیتیں پروان چڑھاؤ۔ گرلز ہاسٹل کے چکر لگانے اور عشق و معاشقہ میں وقت ضائع نہ کرو۔ اگر کم عمری میں تعلیم منقطع ہو گئی ہے تو اتنی محنت کرو کہ تمہارے بعد کسی اور کو تمہاری عمر میں تعلیم نہ چھوڑنی پڑے۔ بڑے خواب دیکھو۔ اپنے لئے۔ والدین کے لئے۔ بھائی بہنوں کے لئے۔ اپنی فیملی کے لئے۔ معاشرہ اور سماج کیلئے۔ اپنے ملک اور پوری دنیا کے لئے۔ خواب دیکھیں گے تبھی اسکو شرمندہ تعبیر کرسکیں گے۔
پندرہ سال کی عمر میں اگر آپ نے بڑے خواب دیکھنا شروع کردیا تو کچھ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ شادی ہوگئی پھر بچے ہوگئے تو انسان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ ایک طرف بیوی بچے ہوتے ہیں دوسری طرف بوڑھے والدین ہوتے ہیں۔ بیوی بچوں کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ ہوتا ہے دوسری طرف والدین اس عمر کو پہنچ جاتے ہیں کہ بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ اس لئے وقت سے پہلے سوچنا شروع کریں۔ جو بڑے ہیں وہ اپنے بچوں کو حوصلہ دیں کہ وہ بڑے خواب دیکھیں۔ زندگی میں کچھ کر گزرنے کا حوصلہ دیں، اپنے بچوں کو بھی اور سماج کے دوسرے بچوں کو بھی۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو مستقبل بہت بھیانک ہونے والا ہے۔ ماحول کو اچھا کرنے میں سوسائٹی کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ باپ بیٹے سے سگریٹ منگاتا ہے۔ جب بچہ سگریٹ نوشی کا عادی ہوجاتا ہے تو اسکی کاؤنسلنگ کے پیچھے پریشان ہوتا ہے کہ سگریٹ کسی طرح چھوڑ دے۔ کیا ہم میں سے ہر فرد اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر سگریٹ نوشی نہیں چھوڑ سکتا۔؟ کیا ہم میں سے ہر فردبچوں کو بڑے خواب نہیں دکھا سکتا۔ ؟
یقیناً کرسکتے ہیں۔
تو پھر دیر کس بات کی۔ آج سے اور ابھی سے شروع کریں۔

Please follow and like us:

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »