للن اپنے دوست کلن کے ساتھ چہل قدمی کے لئے نکلا. باتوں باتوں میں للن نے کلن سے پوچھا کہ میرا بیٹا اب ڈھائی سال کا ہو گیا ہے. ضروری ہے کہ اس کا کسی اسکول میں داخلہ کرا دوں.؟ آپ کی نظر میں کون سا اسکول مناسب ہے..؟ کلن نے جواب دیا کہ یہ تو بڑا مشکل سوال ہے. سرکاری اسکولوں میں تعلیم نہیں ہے اور پرائیویٹ والے توفیس کے نام پر ڈاکہ ڈالتے ہیں. للن نے کہا بات تو صحیح ہے. لیکن داخلہ تو بہر حال کرانا ہی ہے. سو بڑی تگ و دو اور غور و فکر کے بعد ایک اسکول میں داخلہ کرادیا. اسکول انگلش میڈیم تھا اس لیے للن کو دوسری فکر یہ لاحق ہونے لگی کہ اردو عربی کے لیے بھی شام کو کسی مولوی صاحب کی خدمت لی جائے….. بڑی تلاش کے بعد ایک مولوی صاحب مل گئے جن کے پاس بچہ اردو پڑھنے لگا. لیکن للن کو نہ اسکول کے کوئی ماسٹر صاحب پسند آئے نہ مولوی صاحب. جب ملتے دونوں کی شکایت کرتے۔ایک دن للن کا بچہ بیمار ہو گیا. بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے. ڈاکٹر صاحب نے دوا دیا اور کہا دو دن بعد پھر آئیے گا، اس طرح اس نے چھے دن اسی ڈاکٹر کی دوا کھلائی لیکن للن کو افاقہ نظر نہیں آیا اور پھر ڈاکٹر تبدیل کردیا. دوسرے ڈاکٹر کی دوا ایک ہی دن کھلایا اور بچے کو افاقہ ہو گیا. اب للن ڈاکٹروں کو بھی برا بھلا کہنے لگا. حالانکہ وہ مرض ہی ایسا تھا کہ بچہ کوئی دوا نہ بھی کھاتا تو بھی سات دن بعد افاقہ ہو جاتا. حالانکہ اس مرض میں بخار ہوتا ہے اور درد بھی اس لئے ڈاکٹر دوا دیتے ہیں کہ بخار نہ آئے اور درد نہ ہو۔للن کو ایک دن ایک وکیل صاحب کے پاس جانا ہوا. انہوں نے قانون کے دو راستے بتائے. اب للن کو ان سے بھی شدید شکایت ہے کہ دو راستے بتا کے کنفیوز کردیا ہے. وکیل تو ہوتے ہی ایسے ہیں جو صرف گھما پھرا کے پیسے کماتے ہیں. یہی وکیل جج بھی بنتے ہیں تب بھی یہ الٹے سیدھے فیصلہ سناتے ہیں۔چوراہے پہ کھڑا ہولدار ہو یا تھانے میں بیٹھا انسپکٹر، ایس پی ہو کہ ڈی ایم ہر ایک سے للن کو شکایت ہے۔للن اپنی شکایت لیکر پولیس کے پاس جاتا ہے تو بھی رشوت دینی ہے اگر وہ صحافی کے پاس جاتا ہے تو بھی رشوت دینی ہے. پرنٹ میڈیا کا الگ معاملہ ہے اور الیکٹرانک میڈیا کا الگ… ایک ندی کا پل گرتا ہے تو انجینئر کو گالی دیتا ہے. کورونا کی دوا نہیں مل رہی ہے تو سائنسداں بھی گالی پا رہے ہیں. غرض جتنے بھی شعبہ ہائے زندگی ہیں ہرمیدان میں سچے، ایماندار اور وقت کے پابند افراد کی قلت ہے. یہ معاملہ صرف للن کا ہی نہیں ہے کہ اسی کو صرف شکایت ہے بلکہ گاؤں سے لیکر شہر تک کسی بھی چائے خانہ پہ کسی ایک شعبہ کا نام لیجیے پھر دیکھیں کہ کتنی خامیاں نکل آتی ہیں. پھر آپ ان سے پلٹ کر پوچھئے کہ آپ کس میدان کے ماہر ہیں یا آپ کا بیٹا کس میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے رہا ہے تو منھ چھوٹا ہوجاتا ہے اور کوئی جواب نہیں بن پاتا ہے۔اس لئے شکایتیں کرنا بند کیجئے. کسی ایک میدان کا تعین کیجئے اس میں خود کچھ کیجئے اور اپنے جیسے کچھ اور لوگ تیار کیجئے. بچوں کیلئےانکے مزاج کے مطابق میدان کا تعین کیجئے اور ان کو مناسب ماحول فراہم کیجئے. ان شاءاللہ دس سال میں ہمارے پاس ہر میدان کے ماہرین کی ایک معتدبہ تعداد موجود ہوگی. اگر عزت کی زندگی جینا ہے تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہمارے بیچ باصلاحیت اساتذہ، ایماندار ایڈمنسٹریشن، اچھے سیاستداں، معاشی ماہرین، طب و سائنس کے ماہرین غرض زندگی کے تمام شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین ہونے چاہئے. ظاہر سی بات ہے کہ ہم میں سے ہر فرد کی یہ خواہش ہوگی کہ اندھیرا چھٹ جائے. تو اس اندھیرے کو کوسنے سے بہتر ہے کہ ہم میں سے ہر فرد چراغ جلاتا جائے روشنی پھیلتی جائے گی.. احمد فراز نے کیا خوب کہا ہے… شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھااپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتےاز- ڈاکٹر محمد اسلم علیگ