سماج میں دو مزاج کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو تجارت کرنا نہیں چاہتے دوسرے وہ جو جاب نہیں کرنا چاہتے.اللہ نے لوگوں کا مزاج الگ الگ بنایا ہے. ایک انسان وہ ہے جو ٹینشن نہیں لینا چاہتا بلکہ اپنے کمفررٹ زون(Comfort Zone) میں زندگی گزارنا چاہتا ہے وہ جاب اختیار کرتا ہے. جو ہر طرح کے ٹینشن برداشت کرنےکی صلاحیت رکھتا ہے وہ تجارت کرتا ہے. کیونکہ تجارت میں وقت متعین نہیں ہے. ساتوں دن چوبیس گھنٹےتاجر ڈیوٹی پہ ہوتا ہے. جاب میں گھنٹے اور ایام متعین ہوتے ہیں. باقی اوقات میں دماغ اور وقت فری ہوتا ہے.جاب میں تنخواہ متعین ہوتی ہے اس لیے اس سے باہر نکل کر انسان کوئی پلان نہیں کرپاتا ہے. تجارت میں فائدہمتعین نہیں ہوتا ہے. کبھی امید سے بہت زیادہ اور کبھی نقصان بھی. اسکی ایک واضح مثال لاک ڈاؤن ہے. جابوالوں کو تنخواہ ملے گی لیکن تاجر مکمل طور پہ نقصان میں ہے. سوائے چند کے.یہی حال ہمارے دو دوستوں کا ہے. خالد اور اکمل. خالد کا مزاج جاب والا ہے. ٹینشن فری زندگی گزارنا. جبکہاکمل کا تجارت والا مزاج ہے. اکمل کا ماننا ہے کہ جاب لینے والا نہیں بلکہ جاب دینے والا بننا ہے.خالد تعلیم مکمل کرکے یو اے ای کی ایک بڑی کمپنی سے وابستہ ہوجاتا ہے. اکمل دہلی میں ایک چھوٹا کاروبارشروع کرتا ہے.خالد کی بھاری بھرکم تنخواہ کے آگے اکمل کے کاروبار کی کوئی حیثیت نہیں ہے. اس لئے کبھی مزاق مزاق میںلوگ کہتے ہیں کہ تمہیں بھی ایک اچھی نوکری مل رہی تھی اگر جوائن کیا ہوتا تو تم بھی خالد کی طرح آج بی ایمڈبلیو کار میں گھوم رہے ہوتے. اس طرح کے تبصروں سے اکمل کبھی کبھی بہت مایوسی کا شکار ہوجاتا اوراپنے دوست ذاکر سے رابطہ کرتا. ذاکر حوصلہ دیتا کہ دل چھوٹا نہ کرو. اللہ تمہارے بھی دن بدلے گا. وقتیپریشانی ہے. ختم ہوجائے گی. تمہارے گھر میں اتنے اخراجات کا مسئلہ نہ ہوتا تو آج تمہارا بزنس کافی بڑا ہوتا.جو فائدہ کماتے ہو گھر کے اخراجات میں چلا جاتا ہے. جب تجارت بڑی نہیں ہوگی تو فائدہ بھی بڑا نہیں ہوگا.اکمل اور ذاکر کی تقریباً روز ملاقات ہوتی. ایک دن اکمل کو کافی ٹینشن میں دیکھ ذاکر نے مسئلہ جاننا چاہا. اکملنے کہا جو فائدہ ہے وہ تو گھر کے اخراجات میں جاتا ہی ہے اب تو بھرتی میں سے بھی نکل جا رہا ہے. ذاکر نےکہا میرے پاس ایک بہت اچھا پلان ہے. اگر اس پہ عمل ہوجائے تو تمہاری تجارت کافی بڑی ہوسکتی ہے. اکملنے کہا دیر نہ کرو. بتاؤ.ذاکر نے کہا خالد کے پاس لاکھوں روپے ڈیڈ اسٹاک ہیں. وہ اور تم پارٹنر بن جاؤ. اکمل کچھ دیر خاموش رہا. ذاکرنے کہا تمہاری محنت و صلاحیت اور خالد کا پیسہ دونوں ملینگے تو دونوں کو بڑا منافع ہو سکتا ہے. اکمل نے کہاآئیڈیا اچھا ہے لیکن میں کیسے کہوں؟ ذاکر نے کہا اگر تم راضی ہو تو میں خالد سے بات کرتا ہوں.ذاکر نے خالد سے فون پہ بات کی خالد کو بھی یہ آئیڈیا پسند آیا. اس نے اپنی رضامندی کا اظہار کردیا.کاغذی کام کے لیے خالد انڈیا آیا. اپنے اہل خانہ سے بتایا کہ میں اکمل کے ساتھ تجارت میں پارٹنر بننے جارہاہوں. گھر والوں نے پہلے تو اپنے خدشات کا اظہار کیا. لیکن خالد کی باتوں سے مطمئن ہوگئے.ذاکر کو گواہ بناکر معاہدہ طے ہوگیا. کاغذات تیار ہوگئے. خالد نے فائنانس کیا اور اکمل نے پہلے سے زیادہ محنتکی. کمپنی ترقی کرنے لگی. پارٹنرشپ کو دو سال ہوئے تو اکمل جو بائک کی سواری کرتا تھا ایک خوبصورتسی کار لے لیا.اکمل نے کار کیا خرید لیا کچھ لوگوں کے دلوں میں زلزلہ برپا ہوگیا اور کانا پھوسی ہونے لگی. اکمل کے کچھکمپٹیٹر کو تو بالکل پسند نہیں آیا اور بات خالد تک پہونچ گئی کہ ہو نہ ہو اکمل نے ضرور خرو برد کیا ہے. نہیںتو دو سال کے اندر گھر بھی ہوگیا کار بھی آگئی یہ کیسے ممکن ہے؟خالد کے دل میں بھی شک پیدا ہوگیا. وہ بھی سوچنے لگا کہ اکمل ایک زمانہ سے تجارت کررہا ہے لیکن بائکسے ہی سواری کرتا رہا اور میں نے پیسہ لگایا تو دو ہی سال میں بائک کی جگہ آج کار سے کیسے چل رہاہے…ذاکر کو خبر لگی تو وہ بھی بھاگا بھاگا خالد کے پاس پہنچا.ذاکر سے خالد نے اپنے خدشات اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا.ذاکر نے کہا بھائی خالد! تم نے ایک کروڑ کا سرمایہ لگایا تھا. آج کمپنی تین کروڑ کی ہوگئی ہے. پہلے سال میںدونوں کو پانچ پانچ لاکھ ملے. دوسرے سال دس دس لاکھ. اکمل کے گھر کا سالانہ خرچ تقریباً پانچ لاکھ ہے. پہلےسال کا پانچ لاکھ تو اکمل کے گھر کے اخراجات میں چلے گئے. البتہ دوسرے سال دس میں سے پانچ گھر کےاخراجات میں چلے گئے اور دوسرے پانچ لاکھ لگا کے گاڑی لے لیا. وہ بھی اس غرض سے کہ کسی دوسریکمپنی میں کار سے جانے پہ الگ اثرات مرتب ہوتے ہیں. رہی بات گھر کی تو اس نے گھر خریدا نہیں ہے کرایہپہ لیا ہے.خالد کو ذاکر کی بات سے جو شکوک و شبہات تھے اس کا ازالہ ہوگیا اس نے ذاکر کا شکریہ ادا کیا اور دونوںاکمل کے پاس پہنچے. خالد نے اکمل سے معذرت طلب کیا. اکمل نے کہا بھائی تجارت میں ایک دوسرے پہبھروسہ ہونا بہت ضروری ہے. دونوں کس آپس میں اعتماد ہونا لازم ہے. تم بچپن سے مجھے جانتے ہو. میریزندگی تمہارے سامنے ایک کھلی کتاب ہے. ایسا جب پہلے کبھی نہیں کیا تو اب کیا کروں گا. اب تو الحمد للہ ہرلحاظ سے خوشحالی ہے.دونوں گلے ملے.خالد نے جانا چاہا تو اکمل نے کہا ایک سرپرائز ہے. دوسرے کمرے میں داخل ہوئے تو اکمل نے اگلے سال کاپلان پیش کیا. اس پلان میں خالد نے یہ دیکھا کہ یہ فائنانشیل سال پورا ہونے پر ایک آفس ان شاءاللہ دبئی میںہوگی. جو خالد کو سنبھالنا ہے. ذاکر اور خالد کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے. خالد کو بہت پچھتاوا ہوا کہ دوسروںکی بات مان لیتا تو ایک اچھا دوست کھو دیتا. خالد نے اکمل سے پھر معذرت طلب کیا اور یو اے ای کے لیےروانہ ہوگیا. خالد روزانہ صبح جب ای میل دیکھتا تو کمپنی کا حساب کتاب اس کے ای میل میں ہوتا. دونوں کااعتماد اور مضبوط ہوا. خالد نے اور پیسے انویسٹ کئے. کمپنی کی ایک آفس دبئی میں بھی کھولی گئی. اکمل دہلیاور خالد دبئی آفس سنبھال رہے ہیں