نوکری سے سرمایہ کاری تک..

جب ہم کسی انسان کی معاشی صورتحال اور اسکی معاشی پوزیشن کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ چار پوزیشن میں سے کسی ایک پوزیشن پہ نظر آتا ہے.پہلی پوزیشن یہ ہے کہ وہ جو کچھ کماتا ہے اس سے اس کی ضروریات زندگی کی تکمیل نہیں ہوپاتی ہے. یہ ایک الگ موضوع ہے کہ کسی کی ضروریات دس ہزار میں پوری ہوتی ہیں کسی کی ایک لاکھ میں.دوسری پوزیشن یہ ہے کہ جو کچھ کما پاتا ہے اس میں ضرورتیں پوری ہوجاتی ہیں. یعنی نہ کم ہے نہ زیادہ.تیسری پوزیشن وہ کہلاتی ہے کہ ایک انسان اتنا کما لیتا ہے کہ ضرورتیں پوری بھی ہوجاتی ہیں اور کچھ بچ بھی جاتا ہے.چوتھی پوزیشن تو ایک الگ دنیا ہے کہ اتنا کما لے کہ سنبھال ہی نہ پائے.پہلی پوزیشن محتاجی اور غریبی کہلاتی ہے جبکہ تیسری پوزیشن خوشحالی کہلاتی ہے. محتاجی اور غریبی بڑی خطرناک ہے. بعض دفع تو یہ کفر تک لے جاتی ہے. اسی لیے اللہ کے رسول نے اس سے پناہ مانگنے کی تلقین کی ہے.تیسری پوزیشن تو بہت ہی عمدہ ہے کہ انسان اسی پوزیشن میں آکر صدقہ خیرات کرتا ہے، زکوٰۃ دینے والا بنتا ہے. اوپر والا ہاتھ یا دینے والا ہاتھ بنتا ہے. اس لئے اس بات کی ضرور کوشش ہونی چاہیے کہ انسان خوشحال زندگی گزارے.ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے انسان پیسے کماتا ہے. پیسوں کے حصول میں پانچ طرح کے مائنڈ سیٹ پائے جاتے ہیں. یہاں پیسہ کمانے والوں کے مائنڈ سیٹ کی بات ہورہی ہے. حالانکہ کہ ایسے مزاج کے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بالکل آزاد خیال ہوتے ہیں. انکو کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے کہ گھر کی ضروریات کیسے پوری ہوں گی. وہ اپنی دنیا میں مست ہوتے ہیں. کچھ لوگ ہوتے ہیں جن کا مزاج نوکری یا ملازمت کا ہوتا ہے. یہ کبھی رسک نہیں لیتے ہیں. یہ ہمیشہ سیکیورٹی دیکھتے ہیں. اسی لیے عام طور سے دیکھا گیا ہے کہ ایک انسان ستر ہزار کی سیلیری پارہا ہے لیکن چالیس ہزار کی سرکاری نوکری والے فارم بھی پر کردیتا ہے. اس کو ہمیشہ یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ پرائیویٹ نوکری کبھی بھی جاسکتی ہے. سرکاری نوکری میں بھی یہ خدشہ ہوتا ہے لیکن پرائیویٹ کے مقابلہ بہت کم ہوتا ہے. دوسرے یہ بھی معلوم ہے کہ سرکاری نوکری گئی تو کورٹ جا کے کچھ نا کچھ تو ہو ہی جائے گا. نوکری پیشہ لوگ محفوظ مقام تلاش کرتے ہیں. انکی ایک خاصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ وقت کو ہمیشہ تولتے ہیں. چھ بج گئے، میرا وقت ختم ہوگیا گھر جانا ہے. نوکری حاصل کرتے ہوئے یہ ضرور دیکھیں گے کہ صرف اتوار کو چھٹی ہے یا سنیچر اتوار دونوں روز. ماہ پورا ہونے سے پہلے ہی تنخواہ کا کیلکولیشن شروع ہوجاتا ہے. یہ اپنا وقت، اپنی صلاحیت، اپنی قابلیت اور اپنی مہارت کے عوض پیسے حاصل کرتے ہیں. ملازمت میں پیسے متعین ہوتے ہیں. اس لئے جاب پیشہ انسان بڑے کیلکولیشن کے ساتھ اپنی ضروریات کو پوری کرتے ہیں. یہ ایک الگ موضوع ہے جاب پیشہ فرد اپنی تنخواہ میں کس طرح اضافہ کروا سکتا ہے.. دوسرے مزاج کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو آزاد پیشہ یا خود ملازم ہوتے ہیں جنکو عام زبان میں self employed کہتے ہیں. یہ ایسے مزاج کے لوگ ہوتے ہیں جو کسی کے ماتحت کام نہیں کرپاتے ہیں. کسی کا حکم ماننے کا مزاج نہیں ہوتا ہے. یہ کسی کو فالو نہیں کرنا چاہتے ہیں. انکی دنیا اپنی آفس، اپنی دوکان یا کچھ اور جس میں یہ مقید ہوکے رہ جاتے ہیں. انکو دوسروں پہ بھروسا نہیں ہوتا ہے، اپنی صلاحیت اور قابلیت کو ہی یہ حتمی اور سب سے بہتر سمجھتے ہیں اس لئے ہر کام خود کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور اکیلے رہ جاتے ہیں.تیسرے اس مزاج کے لوگ ہوتے ہیں جو تاجر ہوتے ہیں.تاجر کے اندر رسک لینے کی صلاحیت ہوتی ہے، فیصلہ لینے کی صلاحیت ہوتی ہے، فیصلہ پہ عمل کا حوصلہ ہوتا ہے. نئے آئیڈیاز پہ غور کرتا ہے. دوسروں کی صلاحیت، انکی قابلیت اور مہارت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے. ایک ٹیم بناتا ہے. الگ الگ صلاحیتوں کے لوگوں کو انکی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کا ہنر جانتا ہے. ٹیم کے ایک ایک فرد کے مزاج کو پڑھتا ہے، سب کو سمجھتا ہے اور سب کو ایک ساتھ لے کے چلتا ہے.چوتھے اس مزاج کے لوگ ہوتے ہیں جو سرمایہ کاری کرتے ہیں. انکو کام سے مطلب نہیں ہوتا ہے وہ صرف سرمایہ لگاتے ہیں اور آزاد ہوتے ہیں. یہ خود کو استعمال نہیں کرتے ہیں. بلکہ اپنا پیسہ لگاتے ہیں، بنا کسی جنبش کے پیسے سے پیسہ کماتے ہیں. انکو کام کرنا پسند نہیں ہوتا ہے. انکو آزادی چاہئے. دن و رات انکی نگاہ صرف اس بات پہ ہوتی ہے کہ پیسے کہاں لگائے جائیں کہ زیادہ سے زیادہ ملٹی پلائی ہوسکے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے تو یہ طے کرے کہ وہ کس حالت میں رہنا چاہتا ہے. محتاجی والی زندگی بہتر ہے یا خوشحالی والی.خوشحالی والی زندگی پانے کے لئے چار چیزیں ہیں. ملازمت، آزاد پیشہ، تجارت اور سرمایہ کاری. پیسے کمانے کی چاروں حالات کے بیچ ایک ہلکی سی لکیر ہے. اگر اس لکیر کو کراس کرنے کا ہنر آجائے تو ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہوجائیں گے. یہاں بھی شرط ہے آمادگی کی. شرط ہے کہ ترقی والا مزاج ہو. ہم اور آپ اپنا اپنا جائزہ لیں کہ ابھی ہم کس پوزیشن میں ہیں اور آنے والے پانچ دس سالوں بعد کس پوزیشن میں رہنا چاہتے ہیں..؟ بعض لوگوں کی خواہشات تو بہت بڑی ہوتی ہیں. لیکن نہ کسی آئیڈیا پہ غور کریں گے. نہ رسک لیں گے.. نہ آئیڈیا ہے نہ رسک لینے کا حوصلہ و جزبہ ہے تو انسان ایک حالت سے دوسری حالت میں کیسے منتقل ہو سکتا ہے….؟

Please follow and like us:

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »