عزت کی زندگی کا معاشی مضبوطی سے تعلق :

ایک کہاوت کہی جاتی ہے کہ سوتیلا بیٹا اگر کماست ہے تو اسکی عزت زیادہ ہوتی ہے. یعنی ایک خاتون کے شوہر کی پرانی بیوی سے جنم لیا لڑکا اگر زیادہ کماتا ہے تو اسکی اپنے بیٹے سے زیادہ عزت کرتی ہے.اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کو مبعوث کیا تو کہا جاؤ فرعون کی طرف، قارون کی طرف اور ہامان کی طرف.فرعون دراصل سیاسی قوت کا نام ہے. کون سا نظام چلے گا وہ سیاسی قوت ہی فیصلہ کرتی ہے البتہ اس کے پیچھے دو قوتیں ہوتی ہیں جو اسکی نکیل کو اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیں. اس میں سے ایک ہے ہامان دوسرا قارون. ہامان دراصل مائنڈ پاور ہے اور قارون معاشی قوت. اسلامی قوانین کو نافذ کرنے یا اسلام پہ مکمل عمل آوری کے لیے ان دونوں قوتوں کو اسلام کے مطابق کرنا ضروری ہے. یہ تبھی ممکن ہے جب مسلمان دونوں شعبوں میں مضبوط ہوں. پالیسی سازی یا حکومت کو اصل میں چلانے والے وہ ذہین افراد ہوتے ہیں جو حکمرانوں کے پیچھے ہوتے ہیں اور معاشی لحاظ سے جو مضبوط ہوتے ہیں وہ اپنی ضرورت و حالات کے لحاظ سے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے مفاد کے لحاظ سے قانون اور پالیسی بنائیں. سیاسی جماعتوں کو لوگوں پہ حکومت کرنے کیلئے معاشی اور ذہنی قوتوں کا سہارا لینا ہوتا ہے. اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک منسٹر نام کا وزیر ہوتا ہے لیکن پالیسی سازی کا کام اس کے ماتحت ذہین افراد کرتے ہیں. ہم اور آپ میں سے ہر فرد اس بات کو بھی مانتا ہے کہ حکومتوں کے پیچھے کچھ معاشی طاقتیں ہوتی ہیں جو حکومتوں سے اپنے من مطابق یا فائدہ کے حساب سے پالیسی اور قوانین بنواتی ہیں.اگر ہم اپنے گاؤں محلے کی سطح پہ نظر دوڑائیں تو دیکھتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر اور انجینئر کی وہ عزت نہیں ہے جو ایک سیٹھ کی ہوتی ہے. حالانکہ یہ کسی اچھے سماج کی ایک اچھی علامت نہیں ہے بلکہ یہ ایک المیہ ہے.قرآن میں فرمایا گیا ہل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( کیا علم والے اور جاہل یکساں ہو سکتے ہیں) جواب ہے، کبھی نہیں.لیکن سماجی عزت و تکریم کے لئے معاشی مضبوطی کی بڑی سخت ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہی بیوروکریٹس گھر اور گاؤں سے لیکر شہر اور ملک تک کی پالیسی سازی پہ اثر انداز ہوتے ہیں. آج کا بیوروکریٹ جس کی اسلامی تعلیمات سے واقفیت نہیں ہے وہ صرف اپنے مفاد کی فکر کرتا ہے. مزدوروں کا خون پسینہ چوستا ہے اور ایسے حالات بناتا ہے کہ مزدور ہمیشہ مزدور ہی رہے اور سارا پیسہ خود ڈکار جاتا ہے. چند ایام کے لاک ڈاؤن میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ بڑی تعداد میں مزدور پیدل اور سائیکل سے بھی ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کررہے ہیں. یہ آسمان سے نہیں ٹپکے ہیں. اسی ملک کے شہری ہیں پیٹ کی بھوک نے گھر سے کہیں اور پہنچا دیا تھا اور کہیں نہ کہیں کام کررہے تھے. ایک بڑی تعداد میں کمپنیوں نے تنخواہیں دینے سے منع کردیا ہے بلکہ ایک بڑی تعداد میں لوگ جاب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں. ان حالات میں مسلمانوں کو ایک موقع ملا ہے کہ وہ مثالی کردار پیش کریں…. اور ان لوگوں کو بھی سوچنے کا ایک موقع فراہم ہوا ہے کہ زیادہ پیسہ کیا ہوگا. ان کے لیے بھی پیغام ہے جو زندگی کی منصوبہ بندی نہیں کررہے ہیں. رخت سفر باندھ لیا ہے لیکن منزل کا پتہ نہیں ہے.آج کل گفتگو میں ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ امبانی اڈانی کے لیے ہی یہ سرکار ہے. انہیں کے مفاد کے لحاظ سے سرکار پالیسی بناتی ہے. جب ہر کوئی مانتا ہے تو پھر کون سی چیز رکاوٹ بنتی ہے کہ بڑی تجارت نہ کی جائے…؟ میں نے جو سمجھا وہ یہ ہے علم کی کمی.بہت سارے لوگ unorganized تجارت کرنے کے عادی ہیں ان کو لاکھ سمجھائیں وہ یہی کہیں گے کہ ہم کو جی ایس ٹی کا فنڈا سمجھ میں نہیں آرہا ہے. زیادہ کمائیں گے تو انکم ٹیکس زیادہ بھرنا پڑے گا. حالانکہ انکم ٹیکس نہ قرض لے کے بھرنا ہے نہ گیہوں چاول بیچ کے. جو کمایا اور بچایا اسی میں سے حکومت کو دینا ہے. اس کے بہت سے فائدے بھی ہیں جو جتنا زیادہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہے حکومت اسکو اتنی زیادہ عزت دیتی ہے. حکومت ہی کیوں سماج کا ہر طبقہ. اگر مسلمان معاشی لحاظ سے مضبوط ہوتا اور ملک کی اکانومی میں ایک بڑا حصہ ہوتا تو حکومت سی اے اے اور این آر سی جیسے قانون بنانے کی ہرگز جرات نہیں کرپاتی.حکومت کی نگاہ میں یا سماج میں عزت چاہیے تو زیادہ کمانے کا عظم کریں. خوب انکم ٹیکس ادا کریں. خوب زکوٰۃ ادا کریں اور اتنی بڑی تجارت کے مالک بنییں کہ حکومت آپ کے لیے پالیسی بنانے پہ مجبور ہوجائے.. یہ کام ایک دن، ایک ماہ یا ایک سال میں نہیں ہوگا. ارادہ کرلیں تو وہ بھی ہوگا لیکن پہلے ہم عزم تو کریں

Please follow and like us:

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »