دماغ کی تصویر

از ڈاکٹر محمد اسلم علیگ

ایک وہ تصویر ہے جو آپ اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں. ایک وہ تصویر ہے جو آپ کا دماغ دیکھتا ہے.. جیسے میں یہ کہوں کہ آپ گریجویشن کی پہلی کلاس میں ہیں. تو آپ کے دماغ میں وہ پورا منظر سامنے آجائے گا. ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھ کر آپ ماں، باپ، بھائی بہن، گھر مکان کھیت کھلیان ہر چیز کی تصویر دیکھتے رہتے ہیں. دماغ ہماری ان ماضی کی تصویروں کو ری پلے کرتا رہتا ہے. ماضی کے کچھ لمحات بڑے خوشگوار ہوتے ہیں، جنکو یاد کرکے خوشی و مسرت حاصل ہوتی ہے. کچھ لمحات ایسے گزرے ہوتے ہیں کہ دماغ جب انکی تصویریں سامنے لاتا ہے تو ہنستا مسکراتا چہرا غمگین ہوجاتا ہے. چند لمحوں میں چہرے سے خوشی دھواں ہوجاتی ہے اور غموں کے بادل چھا جاتے ہیں. یہ عمل کبھی شعوری طور پہ ہوتا ہے کبھی لاشعوری طور پہ. دماغ زیادہ تر کام لاشعوری طور پہ کرتا ہے. اس کو اس مثال سے سمجھ لیں کہ جب انسان نیا نیا موٹر سائیکل چلانا شروع کرتا ہے تو اس کا مکمل دھیان گیئر، کلچ اور بریک وغیرہ پہ ہوتا ہے، یعنی بائک چلاتے ہوئے گیئر تبدیل کرنا، ایکسیلیٹر تیز کرنا اور بریک لگانا یا چھوڑنا سب شعوری طور پہ ہوتا ہے. نئے چلانے والے کی بائک پہ پیچھے بیٹھیں آپ سے بات کرنے میں اس کو کوئی دلچسپی نہیں ہوگی. لیکن جب وہ چلانے میں ماہر ہوجاتا ہے تو یہ سارے عمل لاشعوری کی حالت میں ہوتے رہتے ہیں. خوب باتیں کرے گا اِدھر اُدھر دیکھے گا.
ماضی کے خوشگوار لمحات خوشی دیتے ہیں، جب کہ تکلیفدہ لمحات تکلیف دیتے ہیں. اگر آپ چاہتے ہیں کہ مستقبل میں خوشی حاصل ہو، تو ان تکلیفدہ لمحات کو دماغ سے نکالنا ہوگا. لیکن یہ تب ممکن ہے کہ جب بھی دماغ ان تکلیفدہ لمحات کی تصویر بنائے ان تصویروں کو خوشگوار لمحات والی تصویروں سے ریپلیس یا تبدیل کردیجئے.
آپ کو کوشش کرنی چاہیے کہ دماغ کا شعوری طور پہ استعمال کریں. اگر آپ اس کا استعمال نہیں کریں گے تو وہ اپنا کام کرنا تو بند نہیں کرے گا اور آپ لاشعوری طور پہ ماضی کی تکلیفدہ وادیوں میں گھومتے رہیں گے. اپنے آس پاس کے لوگوں سے دماغ جو کچھ اخذ کرسکے گا وہی لیگا اور آپ کی بھی حیثیت انہیں لوگوں کی طرح صرف ایک گنتی کی رہےگی. جب دماغ کا استعمال کریں گے تو اس میں جدت آئے گی کچھ الگ سوچیں گے. کچھ کرگزرنے کا جذبہ پیدا ہوگا.
ایسی بے شمار مثالیں ہم اپنے آس پاس دیکھ سکتے ہیں کہ ایک ناکام شخص کس طرح کامیابی کی طرف بڑھتا ہے….
ہمارا ایک ساتھی جو چھٹی کلاس میں سترہویں پوزیشن پہ ہوتا تھا اس نے دماغ میں یہ بٹھا لیا کہ پہلی پوزیشن پہ پہنچنا ہے یقین جانیں آٹھویں کے ششماہی امتحان میں دو سال قبل سترہویں پوزیشن والا طالب علم کلاس میں تیسرا مقام حاصل کرلیتا ہے.
اگر وہ اپنی اس پوزیشن کو دماغ سے شعوری طور پہ نہ نکالتا اور اگلی پوزیشن کو شعوری طور پہ دماغ میں نہ بٹھاتا تو وہ یہ مقام حاصل نہ کرپاتا.
پندرہ اگست کے پروگرام میں دیپک اور شنکر دونوں کو ایک عنوان دیا گیا. اسی عنوان پہ دونوں کو بولنا تھا. دیپک نے شاندار اسپیچ دیا. جبکہ شنکر کی تقریر پہ لوگوں نے خوب ہنسا. لیکن اسکے بعد پورے سال ہر ماہ کلاس کے پروگرام میں شنکر نے بہت اچھی تقریریں کی اور دیپک اس معاملہ میں پیچھے رہ گیا. سال گزر گیا کالج کے سالانہ پروگرام میں پھر دیپک اور شنکر کو موقع ملا. پورے سال انتہائی خراب تقریریں کرنے والا دیپک ایسا انداز بیان اختیار کیا کہ پورا مجمع تالیاں بجانے سے اپنے آپ کو نہ روک پایا اور پورے سال شاندار تقریریں کرنے والا شنکر پھر ہنسی کی وجہ بنا.
دونوں سے جب پوچھا گیا. دونوں نے ایک ہی وجہ بتائی. دیپک نے کہا میں جب اسٹیج پہ پہونچا تو پندرہ اگست کو یاد کیا. مجمع کی وہ واہ واہی اور داد، تالیوں کی گڑگڑاہٹ یاد آنے لگی پھر کیا تھا وہی جوش و جذبہ نکھر کے آگیا. شنکر نے کہا میرے دماغ میں پندرہ اگست والا منظر گھومنے لگا. دماغ میں وہ منظر گھومنے لگا کہ کہیں تقریر اچھی نہ ہوئی تو میرے ساتھی، اساتذہ اور اسٹاف سب ہنسیں گے.
شنکر اگر ان تصویروں کو نکال باہر کرتا اور پورے سال اپنی کامیاب تقریروں کو یاد کرتا تو ایسا نہیں ہوتا.
اس مثال سے یہ بات بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دماغ آپ کو آپ کی ایک تصویر بنا کے پیش کرتا ہے. کیا ویسا ہی رہنا ہے یا آپ اپنے بارے کچھ اچھا سوچتے ہیں.
کیا آپ ایک ٹاپ کا انجینئر بننا چاہتے ہیں. کیا آپ ایک نامور ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں. کیا آپ ملینیر بننا چاہتے ہیں، کیا آپ ایک اچھا رائٹر بننا چاہتے ہیں، کیا آپ ایک اچھا مقرر بننا چاہتے ہیں. غرضیکہ کی دنیا کی کسی بھی فیلڈ میں آپ اپنا نام پیدا کرنا چاہتے ہیں تو اپنی اس کامیاب شخصیت کی تصویر بنائیے. اس کو روزانہ دیکھئے اور یاد کیجیے. یقین کیجئے ایک دن ایسا آئے گا جب آپ کو وہ حاصل ہوجائے گا جو آپ چاہتے ہیں.
انسان جو بننا چاہتا ہے یا جو کرنا چاہتاہے اسکی ایک خوبصورت تصویر دماغ میں بنانا ضروری ہے. جس کے جیسا بننا چاہتے ہیں اسکے جیسا خود کو محسوس کیجئے، اس کے مقام و مرتبہ پہ بیٹھنے کا احساس کیجئے. ایسا کرنے سے یہ نہیں ہوگا کہ سورج طلوع ہونے پہ سوچنا شروع کیا اور سورج غروب ہونے پہ نتیجہ آ گیا. البتہ اس مقام کے طرف سفر شروع ہوجائے گا. ایک زینہ چڑھتے جائیں گے منزل قریب ہوتی جلی جائے گی.
اگر آپ ایک مصنف بننا چاہتے ہیں تو اسکیچ اور پیپر اٹھائیے، ٹائٹل پیج تیار کیجئے اور ایک تاریخ طے کیجئے کہ فلاں تاریخ تک کتاب شائع کرنا ہے. روزانہ دن میں ایک بار اس کو ضرور دیکھئے. ان شاءاللہ جو تاریخ آپ نے طے کیا ہے اس سے قبل وہ کتاب شائع ہوجائے گی…..
آپ کا دماغ غیر شعوری طور پر بار بار آپ کی ناکامیوں کو یاد دلائے گا. ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ جب آپ کسی بڑے خواب کا تذکرہ سماج اور آس پاس کے لوگوں سے کریں گے تو زیادہ تر لوگ آپ کی کمزوریوں اور خامیوں کو بتائیں گے. کچھ سامنے اور کچھ پیٹھ پیچھے. یہ آپ پہ منحصر کرتا ہے کہ آپ ان ناکام لمحات کی تصویروں کو کیسے مٹائیں گے. سماج کو زبانی جواب دیتے پھریں گے یا عزم و حوصلہ بلند کرتے ہوئے منزل کی طرف بڑھیں گے.
دہاڑی کے مزدوروں کے ایک گروپ میں بیٹھ کر اگر آپ یہ کہیں کہ اس ماہ مجھے ایک لاکھ روپے کمانا ہے. تو ان میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ یہ تو ناممکن ہے. لیکن اگر یہی بات لکھپتی لوگوں کے گروپ میں بیٹھ کر کہیں تو ہر ایک یہی کہے گا کہ اس میں کون سی بڑی بات ہے. آپ جو سوچتے ہیں وہ بن سکتے ہیں. جو سوچا ہی نہیں وہ کیسے بنیں گے؟
اٹھائیے قلم اور کاغذ. اپنے مستقبل کی تصویر بنائیے، تاریخ طے کیجئے. روزانہ اسے دیکھئے….
ان شاءاللہ وہ دن ضرور آئے گا جب یہ تصویر حقیقی ہو جائے گی…


Please follow and like us:

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »