از : ڈاکٹر محمد اسلم علیگ
بارش کے موسم میں ٹرین کا سفر بہت لطف اندوز ہوتا ہے۔ خصوصا کوکن کا علاقہ جہاں پہاڑوں کا لا متناہی سلسلہ ہے۔ سرنگیں اتنی کہ فون کا نیٹورک غائب اور تعداد میں اتنی زیادہ کہ شمار کرنا مشکل۔
سفر میں ایک شخص سے ملاقات ہوگئی۔ دیکھنے میں سلیقہ مند اور بات چیت سے کافی بھلا آدمی معلوم ہوا۔
گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔
موبائل کی گھنٹی بجی اس نے فون اٹھاتے ہی سلام کیا۔ سلام سے اندازہ ہوگیا کہ یہ شخص بھی مسلمان ہے۔
میں نے نام پوچھا۔ جواب ملا سالم۔ میں نے بھی اپنا نام بتایا اور کام بھی۔ پھر اس نے بھی اپنی داستان سنائی۔ اس کی باتیں سنتا رہا اور آنکھوں سے آنسو پوچھتا رہا۔
بتایا ماں بہت خوبصورت ہے اور تعلیم یافتہ بھی۔ لیکن والد کا رنگ انتہائی سانولا تھا۔ والدہ کی پہلے شادی ایک بڑے گھرانے میں ہوئی تھی۔ انہوں نے پہلے تو تعلیم اور خوبصورتی کو وجہ بتا کر نانا سے ہاتھ مانگا۔ لیکن چند ہی ایام کے بعد جہیز کی خواہش ظاہر کیا۔ جہیز نا ملنے کی وجہ سے ماں پہ خوب ظلم و زیادتی ہوئی۔ وہ سب کچھ برداشت کرتی رہی۔ ایک دن نانا اچانک وہاں پہنچے ماں کی حالت دیکھی تو ان سے رہا نہ گیا اور وہ انکو مائکے لے آئے۔ اس کے دوسرے دن وہاں سے طلاق کا فرمان آگیا۔ ماں نے عدت گزارا اور پھر ماسٹرس کرنے کا عزم کرلیا۔ ٹیوشن پڑھا پڑھا کر ماسٹرس اور بی ایڈ کرلیا۔ خرچے پورے نہ ہوتے تو شادی بیاہ کے موسم میں روٹیاں بناتی۔ ماسٹرس اور بی ایڈ کرنے کے بعد نانا نے ایک اوسط گھرانے میں شادی کرادی۔ میری پیدائش ہوئی اور میرے والد بھی اپنے رب حقیقی کی طرف واپس چلے گئے۔ غم کا پہاڑ ایسا ٹوٹا کہ نانا بھی برداشت نہ کرسکے اور وہ بھی اپنے رب کی طرف چلے گئے۔
ماں کو محلے کے لوگ عجیب و غریب نگاہوں سے دیکھتے۔ بالآخر ماں نے اس گاؤں کو خیرباد کہہ دیا اور لکھنؤ کو کوچ کرگئیں۔ یہاں ایک انسٹی ٹیوشن میں معلمہ ہوگئیں۔ دن بھر اسکول میں اور صبح و شام ٹیوشن پڑھاتیں۔ انہوں نے اپنے من میں یہ طے کر رکھا تھا کہ مجھے پڑھا لکھا کے کچھ بڑا بنائیں گی۔ لیکن میں نے بھی بچپن میں دیکھا کہ جو عزت پیسے والے کی ہے وہ کسی تعلیم یافتہ کی نہیں کی۔ گاؤں میں سیٹھ صاحب آتے ہیں تو پورا گاؤں انکے آگے پیچھے بھاگتا ہے۔ جبکہ ہمارے گاؤں میں ایک ایسا ڈاکٹر بھی ہے جسکو سائنٹسٹ کا ایوارڈ ملا ہے لیکن اسکا لوگ صحیح سے نام بھی نہیں جانتے۔ اس لئے میں نے سوچا کہ سیٹھ تو جاہل ہے۔ اس لئے سیٹھ بننے کے لئے زیادہ تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی میں دس سال کا تھا جب اس طرح کے خیال آرہے تھے۔ میری ماں ہی سیٹھ کی بیٹیوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی۔ اس لئے کبھی کبھی میں بھی ماں کے ساتھ وہاں چلا جاتا۔
ایک دن سیٹھ صاحب کو ماں سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ بڑی بیٹی نے انجینئرنگ کرلیا ہے۔ اس کی شادی میں ایک آئی آئی ٹی سے تعلیم حاصل کیے ہوئے انجینئر سے کررہا ہوں۔ میں نے سنا تو گھر جاکر ماں سے پوچھنے لگا کہ سیٹھ صاحب کسی امیر لڑکے کے بجائے ایک انجینئر سے اپنی بیٹی کی شادی کررہے ہیں۔ ؟
ماں نے کہا بیٹا آج سیٹھ صاحب اسی انجینئر کی وجہ سے سیٹھ بنے ہوئے ہیں۔ لڑکوں نے تعلیم نہیں حاصل کی۔ جب کہ سیٹھ صاحب کی بہت شدید خواہش تھی کہ لڑکے پڑھ لیں۔ سیٹھ صاحب ایک سال کے لئے باہر چلے گئےتھے اور کمپنی بچوں کے حوالہ کر گئےتھے ۔ ایک سال بعد واپس آئے تو کمپنی بہت نقصان میں پہنچ چکی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ اب سیٹھ صاحب کا سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ پھر انہوں نے ایک انجینئر کو نوکری پہ رکھا۔ اس نے اس کمپنی کو تین سال میں تین گنا بڑی کردیا۔ پھر کیا تھا ان کو یہ بات سمجھ آگئی کہ تجارت بھی ایک جاہل اور تعلیم یافتہ کے کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ تعلیم ہمیشہ نفع بخش ہوتی ہے۔ سیٹھ نے اسی انجینئر کو کمپنی میں پچاس فیصد کا پارٹنر بنا لیا ہے۔ اتنا سننا تھا کہ میرا بھی نظریہ بدل گیا کہ تعلیم ضروری ہے۔ پھر میں نے بھی رخت سفر باندھا اور خوب محنت سے تعلیم حاصل کیا۔ اب میں ایک اہم سرکاری دفتر میں افسر ہوں۔ وہ سیٹھ بھی میری آفس میں آتے ہیں۔
میں نے پوچھا کہ تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ میں کچھ فرق سمجھ آیا۔ اس نے کہا بس اتنا ہی کافی ہے جس سیٹھ کے پیچھے پورا گاؤں بھاگتا تھا وہ سیٹھ میری آفس میں اپنی عرضی لیکر آتے ہیں۔
Umdah nasihat talim pr