از : ڈاکٹر محمد اسلم علیگ
اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے كنتم خير امة اخرجت للناس.
آیت کے اس ٹکڑے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خیرامت کا حصہ ہم تبھی بن پائیں گے جب دوسروں کے لئے مفید ہونگے۔ صرف اپنی فکر کرنے والا شخص خیر امت کا حصہ کیسے بن سکتا ہے۔ ؟
اگر آپ لوگوں کے لئے مفید بننا چاہتے ہیں تو دوچیزوں میں سے ایک چیز ہونا لازمی ہے۔ یا تو آپ علم و فن والے ہوں یا پھر آپ کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہو۔
علم و فن کا دائرہ بہت وسیع ہے اور مال و دولت کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔
علم کی تفریق کو ذہن سے نکال دیں اور یہ سمجھ لیں کہ ہر وہ علم جو دین اسلام کی مدد اور اسکی تعمیر و ترقی کے لئے حاصل کیا گیا ہو وہ دینی علم ہے اور ہر وہ علم جو دین اسلام کی مخالفت میں حاصل کیا گیا ہو وہ دینی علم نہیں ہے۔ ہر وہ فنکاری جو مخلوق کائنات کی مدد کے لئے کی گئی ہو دینی ہے۔ ہر وہ فنکاری جو تخریب اور اور سماج میں بگاڑ کے لئے کی گئی ہو بے دینی ہے۔
علم و فن کے بغیر سماج ترقی نہیں کرسکتا ہے۔ مثلاً کبھی لوگ پیدل سفر کیا کرتے تھے۔ پھر لکڑی کی گاڑیاں آئیں۔ پھر سائیکل، موٹر سائیکل، کار، ٹرین اور اب تو ہیلی کاپٹر اور جہاز کا زمانہ ہے۔ ان تمام ایجادات نے آسانیاں پیدا کی ہیں۔ زندگی کے تمام شعبوں میں انسان روبروز ترقی کررہا ہے۔ زندگی آسان سے آسان ہوتی جارہی ہے۔ اس کو آسان کرنے میں ہمارا کیا کردار ہے۔ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے ہم کیا کررہے ہیں ؟ یہ ہر مسلمان کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے۔ اللہ امت محمدیہ کو خیر امت کا لقب دیتا ہے لیکن شرط ہے کہ یہ لوگوں کے لئے مفید ہو۔ ہم میں سے ہر وہ فرد جو لوگوں کے لئے، سماج و سوسائیٹی کے لئے مفید ہے وہ خیر امت کا حصہ ہے۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا دو ہی طریقے ہیں جس سے ہم سماج کے لئے بن سکتے ہیں۔ یا تو اپنی دماغی صلاحیتوں کا استعمال کریں اور اس قدر علم و فن حاصل کریں کہ مخلوق کائنات کو فائدہ پہنچا سکیں۔ یا پھر اس قدر مال دولت حاصل کریں جس سے ان دماغ والوں کی مدد کرسکیں جو سماج کی بھلائی کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
اپنے مزاج کے حساب سے راستہ کا تعین کریں۔ دوسروں کے لئے مفید بنیں اور خیر امت کا حصہ بن جائیں۔