ہمارے گاؤں کے سبھی لوگ جانتے ہیں کہ شنکر شراب پیتا تھا. ہم نے بھی کئی بار اس کو نشہ کی حالت میں دیکھا. اسکی حالت کو دیکھ کر ترس آتا تھا لیکن کچھ کہنے سے پہلے یہی خیال آتا کہ وہ نشے کی حالت میں ہے کہیں بدکلامی نہ کرجائے. ہم دوسروں سے کہتے کہ اس کو سمجھایا جائے. لیکن ہر کوئی یہ کہہ کے دامن جھاڑ لیتا کہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔شنکر کی بیوی پرائمری اسکول میں ٹیچر تھی. اسکول میں سب سے زیادہ وقت کی پابندتھی. پوری ایمانداری و دیانتداری کے ساتھ بچوں کو پڑھاتی تھی. گاؤں کے لوگ اس کو دیکھتے تو افسوس کرتے کہ بیچاری کہاں پھنس گئی. خود تو سرکاری ٹیچر اور شوہر ہے کہ شراب کے چکر میں ایم اے کا امتحان ہی نہیں دے رہا ہے۔تعلیم و تعلم اور تجارتی زندگی نے ہمیں گاؤں سے دور پہنچا دیا اس لیے یہ سب دماغ سے اوجھل سی ہوگئی تھیں جو وہاں صبح و شام دیکھنے کو ملتی تھیں۔تقریباً دس سال بعد میں نے اپنے شہر کے انتہائی مصروف چوراہے پہ ایک شخص کو خاکی وردی میں دیکھا. کندھے پہ تین اسٹار، سوٹ بوٹ میں ایک دم فٹ شخص. میں نے یادداشت پہ تھوڑا زور دیا . مجھے لگا کہ یہ تو شنکر ہے. پھر خیال آیا کہ وہ شرابی یہاں کیسے ہو سکتا ہے. وہ نشے میں مست کہیں سڑک کنارے پڑا ہوگا۔میں نے گاڑی آگے بڑھائی تو حولدار نے روک لیا. کہا صاحب بلا رہے ہیں. میں نے گاڑی کے کاغذات نکالے اور انکے پاس پہنچا. قریب پہنچا تو شک یقین میں تبدیل ہوگیا. لیکن دماغ قبول کرنے کو تیار نہیں. پھر آفیسر نے مجھے میرے نام سے پکارا اور کہا کیا بھائی اپنے گاؤں کے شنکر کو نہیں پہچانا۔۔۔مجھے بڑی شرمندگی ہوئی. شام کو دعوت پہ مدعو کیا. روداد پوچھا کہ ایسا کیسے ہوا.. ؟ املی سے آم میں کیسے تبدیل ہوگئے..؟کہتا ہے ایک دن شراب پی کے گھر آیا. بیوی کو مارا پیٹا، اس سے پیسے بھی لئے. جب تھوڑا نشہ ہلکا ہوا میں گھر میں بیٹھا تھا. پڑوس کی عورت آکے میری بیوی سے کہنے لگی آج پھر تیرے شوہر شراب کی دوکان پہ شراب پی رہے تھے. بیوی نے کہا پگلی کہیں کی! وہ وہاں شراب پینے نہیں گئے تھے. دو ہزار کا چینج لینے گئے تھے. دیکھو سبزیاں اور باقی پیسے ابھی ٹیبل پہ ہی رکھے ہیں. بلکہ وہ تو گھر میں اس وقت پڑھائی کررہے ہیں. کہہ رہے رہیں کہ ایم اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنا ہے. یہ سن کے میری آنکھیں اشکبار ہوگئیں. اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی کہ جس بیوی کو میں روز مارتا ہوں وہ اپنی پڑوسن سے میرا کردار اتنامثبت بتا رہی ہے. اسی دن عہد کیا کہ شراب کو ہاتھ نہیں لگانا ہے اور کچھ کرکے دکھانا ہے. پھر کیا تھا. بیگ باندھا. شہر کا رخ کیا. امتحان بھی پاس کیا. اور دو سال بعد یو پی ایس سی بھی نکال لیا۔ میں اس سوچ میں گم ہوگیا کہ ایک منفی اور مثبت سوچ کا کتنا اثر ہوتا ہے. کیونکہ کل ہی میں اپنے دوست ڈاکٹر اکمل کے بیٹے کو سمجھا رہا تھا کہ بیٹا آپ تو نماز بڑی پابندی سے پڑھتے تھے. آجکل بڑے خراب بچوں کے ساتھ گھوم رہے ہو. آخر ایسا کیوں..؟ بچے نے کہا انکل کیا فائدہ. میں نماز اللہ کے لئےپڑھتا ہوں لیکن ہر نماز کے بعد امی دس سوال کرتی ہیں. بلکہ شک کو دور کرنے کیلئے یہاں تک پوچھتی ہیں کہ نماز میں تمہارے دائیں اور بائیں کون کھڑا تھا۔