سیلف کنٹرول وہ صلاحیت ہوتی ہے جس سے انسان ناپسندیدہ طرز عمل سے بچتا ہے، پسندیدہ عمل میں اضافہ کرتا ہے، طویل المیعاد اہداف کے حصول کے لئے خود پہ قابو رکھتا ہے.
خود پہ قابو پانے کے لئے نظم و ضبط، عزم و حوصلہ، تحمل، قوت ارادہ اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے.
دوہزار گیارہ میں امریکہ میں تناؤکے اوپر ایک سروے کیا گیا. جس میں ستائیس فیصد افراد نے یہ جواب دیا کہ قوت ارادی کی کمی کی وجہ سے وہ اپنے اہداف کو نہیں پہنچ پاتے ہیں جبکہ اکہتر فیصد افراد کو یقین ہے کہ سیلف کنٹرول کو سیکھا اور مضبوط کیا جاسکتا ہے.
ایک تجربہ میں یہ پایا گیا ہے کہ جو لوگ خود پہ قابو رکھتے ہیں وہ مستقبل میں زیادہ کامیاب رہے ہیں خواہ وہ تعلیم کا میدان ہو، تجارت کا میدان ہو یا معاشرت کا.
انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ایک ریسرچ کیا گیا جو مارش میلو تجربہ کے نام سے مشہور ہے..
محقق نے چند بچوں کو ایک کمرے میں تنہا چھوڑ دیا۔ ان کے سامنے مارش میلو (ایک طرح کاچاکلیٹ) رکھ دیا. بچوں سے کہا جو میرے آنے کا انتظار کریں گے یعنی جو میرے آنے تک نہیں کھائیں گے ان کو مزید مارش میلو ملیں گے. لیکن دیکھا یہ گیا کہ زیادہ تر بچوں نے انتظار نہیں کیا اور اپنا حصہ مارش میلو کھالیا. کچھ نے ضبط سے کام لیا تاکہ مزید مل جائے. پھر کچھ سالوں بعد ان بچوں کا جائزہ لیا گیا جو اب جوان ہوچکے تھے تو وہ بچے جنہوں نے انتظار کیا تھا وہ اپنے اپنے میدان میں زیادہ کامیاب تھے. فوری مگر کم فائدہ کو مستقبل کے بڑے فائدے کی خاطر فوری چھوڑنا سیلف کنٹرول کا اہم حصہ ہے.
سیلف کنٹرول انسان کو زیادہ نتیجہ خیز بناتا ہے. اس سے توانائی، راحت اور خوشی ملتی ہے.
تحقیق سے یہ بھی معلوم چلا ہے کہ سیلف کنٹرول ایک محدود وسیلہ ہے.
چند بچوں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا. ایک گروپ کے سامنے ایک پلیٹ میں بسکٹ اور گاجر رکھی گئی. بچوں سے کہا گیا ان دونوں میں سے کوئی ایک کھانا ہے۔ دوسرے گروپ کے بچوں کے سامنے صرف ایک چیز رکھی گئی. کچھ دیر بعد دونوں گروپوں کے بچوں کو ایک سوال دیا گیا حل کرنے کے لیے. سوال بہت مشکل تھا جو وہ بچے حل نہیں کرسکتے تھے. دیکھا یہ گیا کہ جن بچوں کو گاجر اور بسکٹ دیا گیا تھا اس گروپ کے بچے آٹھ منٹ میں ہمت ہار گئے جبکہ دوسرے گروپ کے بچے کافی دیر تک حل کرنے کی کوشش کرتے رہے..
سب سے اہم سوال ہے کہ سیلف کنٹرول کو کیسے بہتر بنایا جائے..
محققین نے تحقیق کی ہے سیلف کنٹرول کے لیے صحتمند غذا کا استعمال ضروری ہے.
ججز پہ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ لنچ سے پہلے ضمانت کی عرضی صرف دس فیصد منظور ہوئی جبکہ لنج کے بعد پینسٹھ فیصد ضمانت کی عرضیاں منظور ہوئیں. دوسری تحقیق بچوں پہ کی گئی. ایک ہی کلاس میں کچھ بچوں کو ناشتہ کراکے بٹھایا گیا اور کچھ کو بنا ناشتہ کیے. جن بچوں نے ناشتہ نہیں کیا تھا ان کا رویہ بڑا عجیب و غریب رہا. جبکہ لنچ کے بعد سارے بچوں نے بہتر رویہ کا مظاہرہ کیا۔ خود پہ قابو پانے کیلئے ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے جائیں. مثلاً ایک فرد جو دس بجے تک سوتا ہے وہ چاہتا ہے کہ جلدی اٹھے تو اس کو چاہیے کہ پندرہ پندرہ منٹ پہلے اٹھنے کی کوشش کرے ایک دن آئے گا جب وہ فجر کی نماز باجماعت ادا کر سکے گا. وزن کم کرنے کے لیے دوڑ لگانی ہے تو پہلے ہی دن کئی کلومیٹر دوڑ لگانے کے بجائے دھیرے دھیرے اس میں اضافہ کریں.
جس عادت کوکنٹرول کرنا ہے اس کی روزانہ پریکٹس کریں. اس پریکٹس میں دھیرے دھیرے اضافہ کریں پریکٹس اتنی ہو کہ عادت بن جائے. عادت بنانے کے لئے محققین کا کہنا ہے کسی بھی چیز کے لیے اکیس ایام سے ساٹھ ایام تک پریکٹس کرکے عادت بنائی جاسکتی ہے.
Nice…..
Can I simply say what a comfort to find someone that actually understands what theyre discussing on the net. You actually realize how to bring a problem to light and make it important. More and more people really need to read this and understand this side of your story. I was surprised that youre not more popular since you definitely possess the gift.