بچپن سے قاسم کی آواز بڑی میٹھی اور سریلی تھی. آواز سن کر ہی والدین نے یہ فیصلہ کر لیا کہ قاسم کو حافظ قرآن بنائیں گے. قاسم نے پانچویں تک تعلیم مکمل کیا تو والدین نے حفظ کے لیے مدرسہ میں داخلہ کرا دیا. ابتدائی ایام میں والدین کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے قاسم مدرسہ میں مقیم رہا لیکن کچھ ایام کے بعد وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔قاسم کے والد کو بڑا غصہ آیا اور تغلقی فرمان جاری کیا کہ اس کو ممبئی بھیج دیا جائے. کچھ کام دھام سیکھ لے گا تو کما کھا لے گا. اسکو پڑھائی لکھائی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے. بالآخر ایسا ہی ہوا. قاسم کی تعلیم منقطع کرا دی گئی اور ممبئی کی ٹرین میں بٹھا دیا گیا. قاسم ممبئی اپنے چچا کے یہاں پہنچا. دس روز وہاں قیام کیا. چچا نے اسکی حرکات و سکنات پہ غور کیا. تو انکو یہ سمجھ میں آیا کہ یہ بچہ تو پڑھنے لکھنے والا لگتا ہے. اسکو ممبئی کیوں بھیج دیا. قاسم کے چچا نے اپنے بڑے بھائی سے بات کرکے سمجھایا کہ اگر وہ حفظ سے بھاگ رہا ہے تو اسے چھٹویں کلاس میں داخلہ کرا دو. مجھے لگتا ہے کہ یہ پڑھے گا۔قاسم کی ممبئی سے واپسی ہوگئی اور چھٹویں کلاس میں داخلہ کرادیا گیا۔آٹھویں تک کی تعلیم بخوبی اچھے نمبرات سے پاس کرلیا۔قاسم کے گھر ایک نوکر گھریلو کام کیا کرتا تھا. قاسم کے والد کو اس سے بڑی محبت تھی. لیکن ڈاکٹر کی ایک ہلکی سی لاپرواہی سے اسکا انتقال ہوگیا. اسی دن قاسم کے والد نے فیصلہ کیا کہ قاسم کو ڈاکٹر بنائیں گے۔دسویں میں قاسم نے امتیازی نمبرات حاصل کئے. لیکن اسکو میڈیکل سائنس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی. والدین نے دوسروں سے رائے مشورہ کیا تو فیصلہ ہوا کہ انجینئرنگ میں ہی چلا جائے. حالانکہ قاسم کو کامرس میں زیادہ دلچسپی تھی. دوستوں اور رشتہ داروں کا بار بار یہ کہنا کہ حفظ نہیں کئے تو والد صاحب ایسے ہی کافی ناراض ہوئے تھے یہ بھی نہیں کروگے تو انکا دل ٹوٹ جائے گا. اس طرح قاسم نے اپنی دلچسپی کا گلا گھونٹ دیا اور والد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انجینئرنگ میں داخلہ لے لیا۔اسکے ایک چچا ممبئی اور دوسرے دہلی میں رہتے تھے. دونوں لوگ تجارت سے وابستہ تھے۔قاسم دونوں چچا کے یہاں زمانہ طالب علمی میں ہی سفر کرتا رہتا تھا. ان کو بعض ایسے تجارتی مشورے دئے کہ دونوں کو خوب فائدہ ہوا. انجینئرنگ کی تعلیم ختم کرتے کرتے ہی اہل خانہ و رشتہ داروں کو احساس ہوگیا کہ اسکی دلچسپی اور مزاج تو تجارتی نوعیت کی ہے اسکو بی بی اے اور ایم بی اے وغیرہ کرنا چاہئے تھا. لیکن اب پچھتانے کا کیا فائدہ۔ قاسم نے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرلی. کچھ دن جاب کیا. لیکن اس میں دل نہ لگا اور اپنا بزنس شروع کیا. آج اسکی دس سال پرانی کمپنی میں دوسو پچاس مزدور کام کرتے ہیں… جب کوئی بڑا بیوروکریٹ قاسم کو یہ کہتا ہے اگر آپ نے انجینئرنگ کے بجائے بزنس پڑھا ہوتا تو کچھ اور ہوتے تو قاسم پہ کیا گزری ہوگی.