میرے انتہائی عزیز دوست ڈاکٹر ذاکر ایک اسپتال سے وابستہ ہیں. بہت ہی خوش مزاج، ہمیشہ ہنستے مسکراتے، آپریشن کرتے ہوئے بھی مسکراتے اور اسٹاف کو ہنساتے رہتے ہیں.آج صبح ہاسپٹل جانے کے لیے تیار ہو ہی رہے تھے کہ ہاسپٹل سے فون آگیا. سر ایک ایکسیڈنٹ کا کیس آیا ہے اگر آپ آرہے ہیں تو ہم مریض کو ایڈمٹ کرلیں اور اگر تاخیر سے آئیں تو ہم اسکو کہیں اور جانے کی درخواست کردیں کیونکہ اگر لیٹ ہوگا تو مریض کو بڑا نقصان ہوسکتا ہے. ڈاکٹر صاحب نے کہا میں آرہا ہوں. ایڈمٹ کیجئے.ڈاکٹر صاحب نکل ہی رہے تھے کہ بچی چائے لیکر آگئی. لیکن اچانک ہاتھ ہل گیا اور چائے ڈاکٹر صاحب کے کپڑے پہ گرگئی. ڈاکٹر صاحب کا غصہ آسمان پہ پہنچ گیا. بچی کو ایسی ڈانٹ لگائی کہ وہ زاروقطار رونے لگی. پھر اہلیہ محترمہ کی خیریت لینے لگے انکو بھی اس قدر ڈانٹا کہ ان کی بھی آنکھیں بھر آئیں. دماغ کچھ ٹھنڈا ہوا تو کپڑا تبدیل کیا اور ہاسپٹل کے لئے نکلنے لگے. فلیٹ کے دروازہ پہ دیکھا بیٹی اسکول بیگ لیے سِسک رہی ہے. ڈاکٹر صاحب نے بیٹی سے پوچھا کیا ہوا ابھی تک آپ اسکول نہیں گئی…؟ خادمہ نے کہا صاحب دس منٹ تاخیر ہوگئے. اسکول بس بلڈنگ میں آئی اور چلی گئی.اب تو ایک ہی شکل بچی تھی کہ ڈاکٹر صاحب بچی کو اسکول ڈراپ کریں.بچی کو ساتھ لیا اور اسکول کی طرف کار دوڑائی. جلدی کے چکر میں چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کی جگہ ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کار چلانے کی پاداش میں پولیس نے سیٹی بجائی. کار سائیڈ میں لگایا. پولیس نے چالان کاٹ دیا تقریباً دس منٹ یہاں بھی ضائع ہوئے اور پیسے بھی گئے.بچی بیس منٹ تاخیر سے اسکول پہنچی. بنا ہیلو ہائے کئے تیزی سے اسکول میں داخل ہوگئی اور ڈاکٹر صاحب تیس منٹ تاخیر سے ہاسپٹل پہنچے. اس تیس منٹ کا نقصان یہ ہوا کہ مریض کا پیر کاٹنا پڑا. اگر وہی آپریشن آدھا گھنٹہ پہلے ہوتا تو مریض کا پیر بچایا جا سکتا تھا.ڈاکٹر صاحب بہت پریشان ہوئے اور سوچنے لگے. اگر چائے بیوی نے دیا ہوتا تو ایسا نہیں ہوتا. بچی کو بھیج کے بہت بڑی غلطی کی. آج اسکی خیریت نہیں ہے.تبھی جونیئر ڈاکٹر انکے چیمبر میں داخل ہوئے. ڈاکٹر صاحب کو ٹینشن میں دیکھا تو پوچھ پڑا سر کیا ہوا اتنا ٹینشن میں کیوں ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے پورا ماجرا سنادیا . جونیئر ڈاکٹر نے کہا سر اس میں تو غلطی آپ کی ہے. چائے تو کسی سے بھی گرسکتی ہے. اس کی کیا گارنٹی کی بیوی چائے لاتی تو نہیں گرتی..اگر آپ غصہ نہ کرتے بلکہ پیار سے بچی کو کہتے بیٹی کوئی بات نہیں. دھیان دیا کیجئے. تو بچی خوشی خوشی اسکول چلی جاتی. وہ بھی وقت پہ پہنچ جاتی. آپ فوراً لباس تبدیل کرکے ہاسپٹل آجاتے تو آپ بھی وقت پہ پہنچ جاتے. ڈاکٹر صاحب کو فوراً اسٹیفن کووے کا وہ اصول یاد آگیا. جو نائینٹی بائی ٹین 90/10 سے مشہور ہے. اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں جو کچھ رونما ہوتا ہے اس میں دس فیصد پہ اسکا اپنا کنٹرول نہیں ہوتا. باقی نووے فیصد اس بات پہ منحصر ہے کہ وہ اس دس فیصد میں کیسا رد عمل اختیار کرتا ہے.یہ ایک مثال تھی جو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے تھی. زندگی کے ہر پہلو میں اس پہ غور کیا جاسکتا ہے. زندگی کا وہ دس فیصد جو انسان کے اختیار میں نہیں ہے لیکن اسکا ری ایکشن اور رد عمل باقی نوے فیصد کی کامیابی اور ناکامی کا ذمہ دار ہے. کبھی پانچ منٹ ایک دن خراب کرتا ہے اور کبھی ماہ و سال. کبھی تو پوری زندگی کے لئے ایک خوشگوار لمحہ ہوتا ہے اور کبھی پوری زندگی بھر پانچ منٹ ایک پچھتاوہ بن کے رہ جاتا ہے.