اخبار فروش

شنکر آٹھ سال کی عمر میں تیسری کلاس میں تھا تبھی اپنے والد کے ساتھ نیوز پیپر بیچتا تھا. تیسری کلاس میںاتنا تو پڑھ لیا تھا کہ ہندی اخبار کو پڑھ سکے.روزانہ صبح ایک بزرگ نیوز پیپر کی دوکان پہ آتے اور اخبار لیکر وہیں اسٹول پہ بیٹھ کر کچھ دیر اخبار بینیکرتے. انہوں نے شنکر سے کہا بیٹا تم یہاں اپنے والد کی مدد کے لئے اسکول جانے سے پہلے جو وقت لگا رہےہو اس عمل سے ایشور بہت خوش ہوگا. شنکر کے والد سے کہا کہ تم بھی بڑے خوش نصیب ہو بیٹا تمہارے کاممیں ہاتھ بنٹارہا ہے.شنکر کو بزرگ کی بات سے حوصلہ ملا اور اس کے باپ کو بھی اندر سے خوشی محسوس ہوئی. انہوں نے کہاچچا جی اسی بچے کی اچھی تعلیم کے لیے ہی ساری محنت کررہے ہیں. میں ڈیوٹی جانے سے پہلے اور بیٹااسکول جانے سے پہلے اخبار کی اسٹال سے دو پیسے کما لیتے ہیں.ایک دن چچا بزرگ نے دیکھا کہ شنکر بھی اخبار بینی کررہا ہے تو اس کو مشورہ دیا کہ بیٹا خبر کے عنوان سےہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ خبر کیا ہے اس لیے تم وہی خبریں پڑھو جو حوصلہ والی ہوں. بہت سارے واقعات روزانہشائع ہوتے ہیں جنکو پڑھ کو سکون ملتا ہے. خود کو بھی کچھ کرگزرنے کا حوصلہ ملتا ہے اور کچھ ایسی بھیخبریں شائع ہوتی ہیں جو پورا دن خراب کردیتی ہیں ایسی خبریں نہ پڑھنا.شنکر کے دماغ میں بزرگ کی وہ بات بیٹھ گئی. پھر اسنے زندگی بھر ایسا ہی کیا.شنکر کی عمر جس قدر بڑھتی رہی اسی قدر اسے ہر شعبہ ہائے حیات میں یہ دیکھنے کو ملا کہ کچھ لوگ بہتکامیاب ہیں اور کچھ ناکارہ. اس کو یہ احساس ہونے لگا کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اچھے افراد کی ضرورت ہے.لیکن وہ تو صرف کسی ایک شعبہ میں ہی کام کرسکتا ہے. دھرم گرو بنے کہ سیاسی گرو، ڈاکٹر بنے یا انجینئراور نہ جانے کیا کیا خیال اسکو ستانے لگا. ایک دن اسکو خیال آیا کہ پہلے میں اپنے میدان کا ماہر بنوں کچھکرکے دکھاؤں تب لوگ میری بات بھی سنیں گے اور میرے مشورے کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے…لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا. اس لئے کوئی بڑا خواب دیکھنا اس کے لیے مشکلتھا.اس کے والد ایک سیٹھ کے یہاں منشی کا کام کرتے تھے. کبھی کبھی کام پہ جاتے وقت وہ شنکر کو ساتھ لئےجاتے. اس کی حرکت و سکنات پہ سیٹھ بڑی گہری نگاہ رکھتے. شنکر کی باتیں سن کر اور اور اس کے آئیڈیازکو دیکھ کر سیٹھ کو خیال آیا کہ اگر شنکرکو کسی اچھے ادارہ میں پڑھایا جائے تو یہ ایک بڑا سرمایہ بن سکتاہے.سیٹھ نے شنکر کو اپنی آفس میں بلایا. کہا بیٹا تم نے گریجویشن کرلیا ہے. انٹرینس کی تیاری کرو تمہارا داخلہ آئیآئی ایم میں کرائیں گے. جو بھی فیس ہوگی ہم ادا کریں گے.شنکر نے بڑی بیباکی سے سیٹھ سے سوال کیا اس کے بدلے میں آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں. سیٹھ نے کہا تمہارییہی وہ ادا ہے جو مجھے بہت پسند ہے. بیٹا مجھے کیا چاہئے، کچھ خاص نہیں بس پڑھائی کے بعد میری کمپنیکو اور اونچائی تک پہنچانے کے لیے اس سے وابستہ ہوجانا. شنکر نے کہا یہ شرط مجھے منظور نہیں ہے. ہاںتعلیم کے بعد میں تین سال آپکی کمپنی میں کام کرونگا اس کے بعد مجھے آزادی ہوگی کہ چاہوں تو آپ کے یہاںرہوں چاہوں تو کہیں اور جاؤں.سیٹھ نے شنکر کی بات مان لی. شنکر نے ایم بی کیا اور انہی کی کمپنی سے وابستہ ہوگیا.جاب کرتے وقت ہی اس نے ایک فاؤنڈیشن بنایا. ملک کے تمام اداروں کے ان افراد کا ڈیٹا تیار کیا جو کم عمریمیں ہی کچھ الگ کرگزرنے کا حوصلہ رکھتے تھے.تین سال بعد شنکر نے اپنے ہم خیال دو دوستوں کو اور جوڑا. ٹرائی کور (Tricore) نام کی ایک نئی کمپنی کیشروعات کی.کپنی دن دونی ترقی کرتی گئی اور دوسری طرف فاؤنڈیشن نے نئی نسل کے باصلاحیت افراد کا ایک ڈیٹا تیارکرلیا.فاؤنڈیشن نے ان تمام لوگوں کو فائنانس فراہم کرتی رہی کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں.ٹرائیکور نے سوئی سے لیکر جہاز تک بنانے کا پلان کیا اور اس میں کسی حد تک وہ کامیاب بھی ہوئے. کیونکہانہوں نے ہرمیدان کے ماہرین تیار کرلئے جو بعد میں ٹرائی کور کے لئے مفید بنتے گئے. شنکر سے کسی نےپوچھا یہ خیال آپ کو کہاں سے آیا. اس نے کہا میں ایک اخبار فروش کا بیٹا ہوں اور خود بھی وہ کام کیا ہے. اسیزمانے میں ہمارے محلے کے ایک دور رس نگاہ رکھنے والے بزرگ نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ حوصلہ افزاخبریں ہی پڑھنا. میں نے دیکھا کہ بہت سارے باصلاحیت بچوں کی خبریں چھپتی تھیں کہ فلاں بچہ نے یہ چیزبنائی فلاں نے وہ چیز بنائی لیکن غریبی انکو آگے نہیں جانے دیتی ہے کہ وہ کوئی بڑا کام کرسکیں. ہم نے ایسےہی بچوں پہ کام کیا اور آج ایک بڑی ٹیم تیار ہوگئی ہے. اب انہیں بچوں نے ایک نیا مہم شروع کیا ہے تاکہ جسطرح انکی ہم نے مدد کی وہ بھی کسی کی مدد کرسکیں اس کا نام ہےایچ ون ٹیچ ونEach One Teach Oneاگر آپ کو بھی یہ آئیڈیا صحیح لگا تو اپنے گاؤں محلے میں دیکھئے، رشتہ داروں میں دیکھئے کیا کوئی ہے جواونچی اڑان اڑ سکتا ہے تو اسکو پنکھ فراہم کیجئے.

Please follow and like us:

1 thought on “اخبار فروش”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »