دیپک نے اپنی نانی کو فون کیا. کہا نانی ابھی لاک ڈاؤن کچھ اور دن کے لیے بڑھا دیا گیا ہے. میرا یہاں سے نکلپانا ممکن نہیں ہے. نانی نے کہا بیٹا میں تو کوٹے دار کے یہاں گئی تھی لیکن کچھ نہیں ملا. تم کو معلوم ہے کہ وہہر پہلی تاریخ کو کہتا ہے کہ تیس کو آنا، تیس کو جاؤ تو کہتا ہے اگلے ماہ کی ایک تاریخ کو آنا.دیپک فون کاٹ دیتا ہے اور زاروقطار رونے لگتا ہے. وہ شہر میں پھنسا ہے. یہاں سے کیا کرسکتا ہے.بوڑھی خاتون تقریباً ستر سال کی ہیں. ایک ہی بیٹی تھی اور اس بیٹی کو بھی ایک ہی بیٹا. داماد اور بیٹی کا ایکحادثہ میں انتقال ہو گیا. بوڑھی خاتون کا صرف ایک ہی سہارا ہے اس کا نواسہ دیپک.دیپک بھی اپنی نانی کی دیکھ ریکھ کی غرض سے گاؤں میں ہی رہتا ہے. لیکن صرف کھیتی سے گزارا مشکلہورہا تھا. کبھی بارش میں باڑھ اور ٹھنڈک میں کہرا فصل خراب کردیتے ہیں. اس لئے اس نے سوچا کہ شہر چلاجاؤں. پھر نانی کی دیکھ بھال کے لیے چند ماہ قبل شادی کرلیا. نانی کو بیوی کے حوالے کرکے خود شہر چلا گیا.ابھی تو پہلا دن تھا. نہ جاب ہے نہ رات گزارنے کا ٹھکانہ اور اچانک شہر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے پورےشہر میں کرفیو جیسا ماحول. نانی کا ایک ہی سہارا تھا جو خود بھی بے سہارا ہوگیا ہے.شہر میں نہ کوئی دوست ہے نہ رشتہ دار. ہوتا بھی تو کیا کرتا. شہروں میں چھوٹے سے گھر میں کئی کئی لوگرہتے ہیں. اسی میں بیوی، بچے اور بہو سب ہیں. اس میں مزید کسی اور کی گنجائش کہاں ہے.کچھ لوگ آتے ہیں. سڑک کنارے بیٹھے لوگوں کو کھانا دیتے ہیں انہیں کا راستہ دیکھتے دیکھتے شام ہوجاتی ہے.کھاتے ہیں اور سوجاتے ہیں. رات میں خواب بھی آتے ہیں تو انتہائی ڈراؤنے. نانی بیمار ہے. بیوی بھی پورےپورے دن بھوکی رہ جاتی ہے. نئی نویلی دلہن کس کے سامنے ہاتھ پھیلائے. کس سے اپنا دکھڑا سنائے.آج دیپک کو کچھ لوگ کھانا دینے آئے اور آپس میں بات کررہے تھے کہ جب اس مرض کا پہلا مریض اپنے ملکمیں آیا تھا تبھی اگر حکومت نے باہر سے آنے والوں کو الگ تھلگ رکھا ہوتا تو یہ بیماری ہرگز نہیں پھیلتی.دیپک ایک دیہات کا رہنے والا اسکو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی.آج تو بیوی کا فون آیا آواز تھوڑی بھرائی ہوئی، کہا نانی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے. شنکر گھبراہٹ کا شکار ہوگیاکہ کیا کرے. نہ ٹرین چل رہی ہے نہ بس. جائے تو کیسے جائے. بالآخر تین سو کلو میٹر کا سفر پیدل چلنے کافیصلہ کرلیا. کئی دن پیدل چلنے کے بعد شنکر گھر پہنچا لیکن نانی اِس دنیا سے اُس دنیا کو رخصت ہوچکی تھیں.دیپک بیوی سے لپٹ کے رونے لگتا ہے. کہتا ہے اب شہر نہیں جاؤنگ