شنکر بنا ہیلمیٹ لگائے بائک سے جا رہا تھا. ٹریفک حولدار نے سیٹی بجائی تو مجبوراً بائک کنارے لگانا پڑا. حولدار نے کہا سر اے ٹی ایم کارڈ دیجئے. شنکر نے کہا اے ٹی ایم کیوں؟ حولدار نے کہا آپ نے ہیلمیٹ نہیں لگایا ہے. اس کی فائن ڈیجیٹل طریقہ سے دینی ہے. شنکر نے کہا کچھ خرچہ پانی لے لیجیے. میں بھی نکلوں تھوڑا جلدی ہے اور آپ کی بھی جیب گرم ہوجائے گی. حوالدار نے پوچھا اتنی جلدی میں کہاں جا رہے ہیں. کوئی مریض تو ساتھ میں نہیں ہے کہ ہاسپٹل کا بہانا بنا سکو. شنکر نے کہا سرجی مریض کیا پورے دیش کو کرپشن کی بیماری لگ گئی ہے. میں اس وقت اینٹی کرپشن پروگرام میں جا رہا ہوں جانے دیجئے. سو کا نوٹ حولدار کو پکڑاتے ہوئے شنکر اینٹی کرپشن احتجاج میں شرکت کے لئے چلا گیا.پاس کھڑے ہوئے شخص نے کہا سر انہوں نے جو سو کا نوٹ دیا یہ کیا تھا..؟ کیا یہ کرپشن میں نہیں آتا..؟حولدار نے کہا سر جی ہم تو صرف بدنام ہیں. اگر آپ تھوڑا غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ملک کی ایک بڑی تعداد کرپٹ ہے.ایک فرد ہاسپٹل جاتا ہے نمبر پہلے پانے کے لئے اٹینڈینٹ کو رشوت دیتا ہے جس نے مانگا نہیں ہے وہ کرپٹ اور جو دے رہا ہے وہ کیا ہے..؟کسی بھی سرکاری دفتر جاتے ہیں تو کسی کے پاس وقت نہیں ہوتا ہے وہاں ہر چپراسی کو پیسے دیکر جلدی کرنا چاہتے ہیں. ٹرین کے ٹکٹ سے لیکر فلموں کے ٹکٹ تک بلیک میں بکتے ہیں. گاؤں میں راشن اور کیروسین بلیک میں بکتا ہے. کیا خریدار کو معلوم نہیں ہے کہ یہ کوٹیدار غریبوں کا حق سر بازار بیچ رہا ہے…؟ دودھ والا دودھ میں پانی ملاتا ہے. دوسرا لال مرچ میں کچھ اور ملاتا ہے. چائے میں لکڑی کا برادہ تو گھی میں ڈالڈا. اس طرح ہر کوئی دوسرے کو بیوقوف بنانے کے چکر میں خود بیوقوف بن رہا ہے. رشوت لینے والے سے زیادہ رشوت دینے والا ذمہ دار ہے. لیکن شنکر کو یہ بات تب سمجھ میں آئی جب وہ چمڑہ کا سینڈل خریدنے چور بازار پہونچا تاکہ وہ سستے میں خرید لائے. اتفاق سے شنکر کو دو روز قبل اپنی غائب ہوئی سینڈل مل گئی.شنکر کو خیال آیا کہ اگر لوگ چور بازار سے یا چوری کا کوئی بھی سامان خریدنا بند کردیں تو بہت سارے لوگ چوری سے بعض آجائیں گے. لیکن کیا یہ اس سماج میں ممکن ہے جہاں چند سو روپے، ایک بوتل شراب اور ایک ساڑی کے عوض پھر اسی کرپٹ نیتا کو ووٹ دے دیتے ہیں جو پہلے بھی پانچ سال پورے حلقہ کا ترقیاتی فنڈ ڈکار چکا ہو.شنکر نے کہا بالکل ممکن ہے لیکن آغاز اپنی ذات سے کرنا ہوگا