کبھی کبھی حقیقت برعکس ہوتی ہے۔

ڈاکٹر محمد اسلم علیگ

ایک ورکشاپ میں جانے کا اتفاق ہوا. جس میں متعدد میدانوں کے ماہرین شریک تھے. اپنے اپنے میدان کے مطابق انہوں نے پروگرام پیش کئے. ان مقررین میں ایک ڈاکٹر تھے. ڈاکٹر میڈیسن والے نہیں بلکہ پی ایچ ڈی والے.
یہ ڈاکٹر جمال فائنانس کے ماہر تھے. ورکشاپ میں تعلیمی لحاظ سے ہر سطح کے لوگ موجود تھے. اس میں ایک شخص ایسا بھی شامل تھا جو صرف دسویں پاس تھا جس کا نام اکمل تھا اور وہ ڈاکٹر جمال پہ نگاہ رکھے ہوئے تھا. دونوں اتفاق سے ایک ہال میں آمنے سامنے آگئے. اکمل کے لباس اور بات چیت سے ڈاکٹر جمال صاحب نے اندازہ لگا لیا کہ یہ شخص زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہے. ڈاکٹر صاحب نے اس کا خوب مضحکہ بنایا لیکن اکمل مسکراتے ہوئے ٹال دیتا. ڈاکٹر صاحب کی قوت برداشت اور معافی کی صفت چیک کرنے کے لئے اس نے ڈاکٹر صاحب کے چمکتے ہوئے جوتے پہ چائے گرادیا. ڈاکٹر صاحب کو بہت غصہ آیا خوب کھری کھوٹی سنایا. کہنے لگے تم کو معلوم بھی ہے یہ جوتہ کتنے ہزار روپے کا ہے. تمہیں کیا معلوم ہوگا تم تو دور دور تک اسطرح مہنگے جوتے کے قریب سے بھی نہیں گزرے ہوگے. اکمل نے کہا محترم میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا ہے. معاف کیجئے. اکمل نے معافی مانگی اور دونوں
بات کرتے ہوئے ایک کمرے میں پہونچے جہاں ایک پینٹنگ نیلامی کے لئے دیوار پہ لٹک رہی تھی. ڈاکٹر صاحب نے کہا اس تصویر کو دیکھو. اس میں بہت حسن کے ساتھ اس بات کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہمیشہ جو دکھتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے. یعنی ظاہری طور پہ جو محسوس ہوتا ہے حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے.
اکمل نے کہا بالکل صحیح بات ہے آپ کی. اس پینٹنگ میں بہت شاندار حقیقت کی عکاسی کی گئی ہے.
ڈاکٹر صاحب کی جو حیثیت تھی ادا کرنے کی انہوں نے ایک پرچی میں لکھ کر سامنے رکھے باکس میں ڈال دیا. ان کا خیال تھا دوسرا شخص جو ایک سستے لباس میں ملبوس ہے اس کی کیا حیثیت کہ وہ اس پینٹنگ کو خریدنے کی سوچے. ان کا خیال تھا کہ یہ تو نہیں لے پائے گا.
لیکن ہوا اس کے برعکس اکمل نے سب سے زیادہ قیمت لگا کر اس پینٹنگ کو خرید لیا.
ڈاکٹر صاحب کو بڑی حیرانگی ہوئی وہ تعجب بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے. کبھی پینٹنگ کی طرف کی طرف دیکھتے کبھی اکمل کا لباس اور جوتا دیکھتے. پھر آگے بڑھ کر گویا ہوئے آخر تمہیں اس پینٹنگ میں کیا نظر آیا جو تم نے اتنی بڑی رقم میں خریدا.
اکمل نے جواب دیا. یہ پینٹنگ میرے دوست نے بنایا ہے. اس نے یہ پینٹنگ ہم دونوں کے ایک دوست کو تحفہ میں دینے کے لیے بنایا تھا. لیکن حالات نے ایسی کروٹ لیا کہ اس کو یہ پینٹنگ بیچنی پڑی حالانکہ میں نے مدد کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن اس نے کچھ بھی لینے سے منع کردیا. اور بنا مجھے اطلاع کئے اس نے یہ پینٹنگ بیچنے کا فیصلہ کیا. مجھے معلوم ہوا کہ وہ خود اس کی نیلامی نہیں آیا ہے کیونکہ وہ اسے بیچنا نہیں چاہتا تھا. اس لئے میں نے سوچا یہ پینٹنگ اتنی بڑی قیمت میں خریدونگا کہ اس کے مسائل حل ہوجائیں.
ڈاکٹر صاحب کہنے لگے یہ پینٹنگ تو ایسے شخص نے بنائی ہے جو ایک مہنگے علاقہ میں رہتے ہیں عالیشان گھر ہے. انتہائی مہنگی کار ہے. پھر ان کی حالت ایسی کیسے ہے. اس شخص نے جواب دیا. یہی تو پینٹنگ میں بتایا ہے کبھی کبھی حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے اس سے جو کچھ نظر آتا ہے. رہی بات آپ کے جوتے کی. تو یہ جوتا میری کمپنی بناتی ہے. اس کمپنی کا مالک میں ہی ہوں. آپ کے بارے میں میرے ایک دوست نے کہا تھا کہ ایک فائنانس کے ماہر ہیں وہ اس ورکشاپ میں شامل ہورہے ہیں ان سے ملنا. میں بہت دیر سے آپ پہ نگاہ رکھے ہوئے تھا. آپ علم کے لحاظ سے بہت بڑے ہوسکتے ہیں لیکن آپ کو لب و لہجہ اور سوچنے کا نظریہ بالکل بھی صحیح نہیں ہے. یاد رکھیں کبھی کبھی جو سامنے نظر آتا ہے حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے.

Please follow and like us:

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »