میں تو بس دہی کا انتظام کررہا ہوں

شنکر ابھی دو سال کا تھا کہ اس کی ماں کا انتقال ہوگیا. اس کی پرورش کی پوری ذمہ داری باپ کے کاندھوں پہ آگئی. شنکر کے والد دیپک وقت کے انتہائی پابند ایک کامیاب تاجر تھے.شنکر کے والد نے بچے کے پیار میں دوسری شادی نہیں کی. شنکر کو ماں کی ممتا اور باپ کا پیار دونوں والد نے ہی دیا. صبح میں وقت میں جاگنا، بچے کو جگانا، اسکول کے لیے تیار کرنا، اسکول ڈراپ کرنا. یہ سارے کام سیپک خود کرتےتھے . گرچہ گھر میں پہلے سے نوکر تھے جو گھر کے کام کاج کرتے تھے. لیکن شنکر کو پورا خیال اسکے والد دیپک ہی رکھتے تھے. شنکر کو کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ شنکر کی ماں نہیں ہے.شنکر تقریباً پچیس سال کا ہوگیا. اسکے والد بھی پینتالیس سال سے زیادہ کے ہو گئے تھے. شنکر ایم بی اے کرکے اپنے والد کی کمپنی جوائن کرلیاتھا. والد نے دیکھا کہ بیٹا بڑی مہارت سے کمپنی کو سنبھال رہا ہے. تو دھیرے دھیرے کمپنی کی ساری ذمہ داریاں اور اختیارات شنکر کے حوالہ کردیا. شنکر کی شادی ہوگئی. شنکر کے والد بیٹے اور بہو دونوں کو خوش دیکھ کر خود بھی بہت خوشی محسوس کرتے اور دعا کرتے رہتے… ہے بھگوان! شنکر جیسا معاملہ اسکی اولاد کے ساتھ نہ کرنا.شنکر اپنے والد کے ساتھ یہاں وہاں آتے جاتے متعدد محفلوں میں کئی مرتبہ یہ سن چکا تھا کہ لوگ اس کے والد کو مشورہ دیتے کہ شادی کرلو بڑھاپا کیسے گزرے گا. یہ مشورہ سنتے سنتے ہی شنکر جوان ہوا تھا. لیکن وہ ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ اپنے بیٹے کہ خوشی کی خاطر اپنی خوشی قربان. یہی میرا سب کچھ ہے. میں اسکا باپ بھی ہوں اور ماں بھی. باپ کا پیار تو دیتا ہی ہوں ماں کی طرح اسکی پرورش کا بھی پورا خیال کرتا ہوں. بڑا ہوگا، شادی ہوگی بہو آئے گی، پوتی پوتا آئیں گے انہیں کے سہارے بڑھاپا بھی گزر جائے گا.شنکر کو یہ جملے کان میں ہر روز سنائی دیتے تھے. ماضی میں کہے گئے باپ کے وہ جملے شنکر کو رلا دیتے کہ باپ نے اسکی خاطر اپنی خوشیوں کو قربان کردیا. کیا وہ بھی باپ کو خوش رکھ پائے گا…؟ایک روز شنکر گھر میں داخل ہوا. والد کھانا کھارہے تھے. شنکر ہیلو ہائے کرتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا. کپڑے تبدیل کرنے بعد کمرہ سے باہر نکل ہی رہا تھا کہ باپ نے بہو سے دہی کھانے کی خواہش ظاہر کی. بہو نے معذرت کرلی کہ پاپا دہی تو آج نہیں ہے. چند لمحوں کے بعد شنکر اپنے ڈائننگ ٹیبل پہ کھانے کے لیے بیٹھا. کھانے کی جملہ چیزوں کے ساتھ دہی بھی حاضر ملی. شنکر نے سب کچھ کھایا لیکن دہی کو ہاتھ نہ لگایا.خاموشی سے اٹھا والد کے کمرے میں گیا. بہت ہی پیار بھرے لہجے میں کہا. پاپا تیار ہوجائیےکورٹ چلنا ہے. دیپک پریشان ہوکے بیٹھ ہوگئے.بیٹا خیریت تو ہے؟ کمپنی میں کچھ دقت آگئی کیا؟ کورٹ کا مسئلہ کہاں سے پیش آگیا؟ شنکر نے کہا نہیں پاپا. ایسی کوئی بات نہیں ہے. آپ نے بچپن سے میرا کس قدر خیال رکھا. میری خوشی کی خاطر آپ نے اپنی خوشیوں کو قربان کردیا. میری خاطر آپ نے اسکول تک قائم کردیا. وقت آگیا ہے کہ میں آپ کی خوشیوں میں اضافہ کروں. آپ کے سکون و اطمینان کا انتظام کروں. والد نے کہا بیٹا مجھے ہرطرح کا سکون حاصل ہے. تم میرے سامنے ہو بس یہی کافی ہے. شنکر نے کہا نہیں پاپا. اپنے کالج کی پرنسپل میم کے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا. انہوں نے اپنی بیٹی کی خاطر دوسری شادی نہیں کی ہے. بہت دنوں سے میری خواہش تھی کہ آپ کی شادی ان سے ہوجائے. آج میں نے ان سے بات کر چکا ہوں. وہ کورٹ پہونچ چکی ہوں گی. آپ بھی تیار ہوجائیں. فوراً وہاں پہنچنا ہے. دیپک نے کہا بیٹا میرے لئے آپ ہی سب کچھ ہو. یہ سب کرنے کی کیا ضرورت ہے…؟بیٹے کہا پاپا میں تو صرف آپ کے لیے دہی کا انتظام کررہا ہوں. آج سے میں کمپنی میں تنخواہ پہ کام کروں گا اور کرائے کے دوسرے گھر میں رہونگا تاکہ آپ کی بہو کو معلوم ہو جائے کہ پیسے کتنی مشکل سے آتے ہیں..اور آپ کو جو بھی کھانے میں پسند ہو وہ سب دسترخوان پہ حاضر ملے

Please follow and like us:

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »