شنکر ایک ہونہار طالب علم تھا. ابھی وہ پانچویں کلاس میں تھا کہ اس کے والدین کا انتقال ہوگیا. اپنے والدین کی اکلوتی اولاد بالکل اکیلا ہوگیا. یتیم و لاوارث. شنکر کے والد کچھ کرتب اور کھیل تماشے کرکے گھر چلا رہے تھے. انہیں کے ساتھ ان کا بیٹا شنکر بھی کچھ فن سیکھ لیا تھا. وہ کبھی کبھی شوقیہ کچھ کرتا رہتا تھا. اب تو اس کو اپنا پیٹ پالنے کے لیے کچھ کرنا لازمی تھا کیونکہ شنکر کو کوئی کھلانے پلانے والا نہیں تھا. شنکر کا تعلق ایک گاؤں سے تھا. اس کے بچپن کے ایک ساتھی دیپک نے اسے شہر بلا لیا. دیپک کا تعلق بھی اسی گاؤں سے تھا. دیپک اپنے والد کے ساتھ شہر میں رہتا تھا. ایک مال میں ان کی اپنی دوکان تھی. لیکن وہ دوکان دیپک کے ایک شدید مرض کے علاج میں بیچنی پڑی. پھر بھی دیپک کا تشفی بخش علاج نہیں ہو سکا.
شنکر شہر پہنچا. وہ گھر سے یہ سوچ کر چلا تھا کہ دیپک کے پاس جاکے رہے گا. لیکن شہر پہونچنے سے پہلے ہی اسے خبر مل گئی کہ دیپک کے والد دیپک کے علاج میں کافی پریشان ہیں یہاں تک کہ ان کی دوکان بھی بِک گئی ہے. اس لئے شنکر دیپک کے یہاں نا جاکر اسٹیشن پہ ہی رہ گیا. اگلے دن ایک مال میں ایک دوکان کے سامنے کرتب دکھانے لگا. اس کے کرتب کو لوگوں نے بہت پسند کیا. کسی نے ایک روپیہ کسی نے پچاس پیسہ اس کےفن سے خوش ہوکر دیا. اپنی فنکاری اور کرتب بازی سے اتنا وہ کما لیتا تھا کہ اس کا تینوں وقت کے کھانے کا انتظام ہوجاتا تھا.
لیکن اس کی کرتب بازی سے وہاں کا ایک دوکاندار بہت پریشان رہتا تھا. اس دوکاندار کا خیال تھا کہ جو لوگ کچھ پیسے سے سامان لینے آتے ہیں وہ پیسہ لوگ اس کی کرتب بازی سے خوش ہوکر اس کو بخشیش دے دیتے ہیں اس لیے اس کو بزنس میں بڑا نقصان ہو رہا ہے. ایک دن اس دوکاندار نے شنکر کی فنکاری میں استعمال ہونے والے سامان توڑ دئے.
شنکر حیران و پریشان، بڑی منت و سماجت کیا لیکن اس دوکاندار نے ایک نہ سنی.
شنکر اس رات کھانا نہ کھا سکا اور اسی مال میں اس کے قریب ایک چائے خانہ کے باہر سو گیا. علی الصبح چائے کی دوکان کھولنے کے لیے جب اس کا مالک وہاں پہنچا تو دیکھا کوئی سو رہا ہے. اس نے اس کو جگایا اور خیریت دریافت کیا. شنکر نے اپنی پوری روداد سنائی. چائے والے نے شنکر کو حوصلہ دیا. کچھ کھانے کے لئے پیش کیا. شنکر نے لینے سے انکار کردیا. دوکاندار نے کہا کوئی بات نہیں، میں بھی تمہارا فن دیکھ دیکھ کر خوب لطف اندوز ہوا ہوں. یہ کھانا اسی کے بدلے ہے. رہی بات تمہارے سامان کی تو یہ تم مجھے دیدو میرا ایک دوست یہی بناتا ہے. میں اس سے بنوا لاؤنگا.
وہ اس ٹوٹے پھوٹے سامان کو لے گیا اور اگلے دن دیوالی تھی. اس دن ایک نیا سامان لے کے آیا. یہ بہت حیران و پریشان تھا کہ یہ شخص اتنی مدد کیوں کررہا ہے.
ایک دن شنکر نے اس شخص کا پیچھا کیا. اس کے گھر تک پہنچ گیا. پڑوس کے ایک چھوٹے لڑکے سے ان کے بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ اس کے بچپن کے دوست دیپک کے والد ہیں. دیپک کو بھی اسی طرح کے کچھ فن اور کرتب آتے تھے. وہ بھی یہ سب کبھی کبھار کیا کرتا تھا. لیکن وہ شدید بیماری کا شکار ہوا اور اس مرض کے علاج میں دیپک کے والد کی دوکان بھی بِک گئی لیکن اس کا علاج نا ہوپایا اور وہ اس دارفانی سے کوچ کرگیا. دیپک سے چھوٹی اس کی ایک بہن تھی. وہ بھائی موت کے بعد دماغی طور سے کچھ ڈسٹرب ہوگئی. ڈاکٹروں نے اس کا علاج یہ بتایا تھا کہ اس کو گھماؤ ٹہلاؤ، گھر کے غمگین ماحول سے اس کو باہر نکالو، کچھ کھیل کود، کرتب اور فنکاری دکھاؤ تاکہ اس کا دماغ اس صدمہ سے باہر آئے. ایسا ہوا تو یہ ٹھیک ہوجائے گی.
یہ سب سنکر دیپک کی آنکھیں بھر آئیں. اس نے ارادہ کیا دوست تو چلا گیا. لیکن اس کی بہن کو خوشی والی زندگی میں واپس لانے کے لئے جو ہو سکے گا کریگا.
دیپک کے والد نے دوسرے دن شنکر سے کہا.
بیٹا!
میری ایک بیٹی ہے اس کو اس طرح کی فنکاری بہت پسند ہے کیا تم اس کو تھوڑا دکھاؤ گے؟
شنکر کو یہ سنتے ہی بے پناہ خوشی ہوئی اور اس نے فوراً مثبت میں جواب دیا.
دیپک کے والد کو شنکر کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوگیا تھا اور شنکر بھی اپنے دوست کے والد کے بارے میں جان چکا تھا. لیکن دونوں نے اس کو ظاہر نہ کیا اور دونوں اس مغالطہ میں مبتلا رہے کہ یہ میرے بارے میں نہیں جانتے ہیں.
ماہ و سال گزرتے گئے، دیپک کی بہن ٹھیک ہوگئی. شنکر بڑا اسٹیج پلیئر بن گیا. کچھ سالوں کے بعد شنکر نے وہ دوکان جو دیپک کے والد نے بیچ دی تھی اس کو خرید کر اپنے دوست کے والد کو دیوالی کے تحفہ کے طور پہ پیش کردیا. ادھر دیپک کی بہن نے گریجویشن کرلیا.
ایک دن دیپک کے والد کو خیال آیا کہ اپنی بیٹی کے لئے شنکر کا ہاتھ مانگے لیکن پھر سوچنے لگا وہ اتنا امیر ہوگیا ہے وہ کیوں میری بیٹی سے شادی کریگا. تنہائی میں بیٹھا وہ یہ سوچ رہا تھا. اگلے دن اس نے یہ تذکرہ اپنے ایک دوست سے کردیا. اس نے جاکر شنکر کو یہ بات بتا دی.
شنکر خدا کا بے پناہ شکر ادا کرنے لگا. کہنے لگا میں یہ بات پچھلے ایک ماہ سے سوچ رہا ہوں لیکن انکل سے کہہ نہیں پارہا تھا.. آپ ان سے جاکر کہہ دیں. میں تیار ہوں…
اس طرح دیپک کے والد کو ایک شنکر کی شکل میں ایک بیٹا مل گیا. شنکر کو والدین جیسے دو فرد مل گئے.
اس کہانی کا پیغام یہ ہے کہ کیا آپ نے کسی یتیم کی اس قدر مدد کی ہے کہ وہ اپنے آپ کو یتیم نا سمجھے. نہیں کئے ہیں تو اب سے سوچیں کہ کیا کرنا چاہیے.؟
کیا آپ کسی کا مستقبل جانتے ہیں.؟ یقیناً جواب یہی ہوگا کہ کوئی کسی کا مستقبل نہیں جانتا ہے. اس لئے ہر شخص کی عزت اور قدر کریں. اگر کوئی مدد کا مستحق ہے تو اس کا مزاق اڑانے کے بجائے اس کی مدد کریں. اللہ ہمارے خیر کے کاموں کا بدلہ کس کس کس شکل میں دیتا ہے اس کو کوئی نہیں جانتا.
Excellent story…pls keep it up…