عمل یا ردعمل

شنکرکو رہائش کے لئے گھر چاہیے تھا. وہ اپنے دوست ذاکر کے ساتھ گھر کی تلاش میں نکلا. ایک محلہ میں ایک صاحب نے گھر کی رہنمائی کی. دونوں وہاں پہنچے. دروازہ کی گھنٹی بجائی تو ایک محترمہ دروازہ پہ آئیں. شنکر نے کہا سر ہوں تو بلا دیجئے ہم کو کرائے پہ گھر چاہیے ان سے کچھ بات کرنی ہے. کہنے لگیں جو بھی کہنا ہے مجھ سے کہیے. وہ اس وقت گھر پہ نہیں ہیں.شنکر نے کہا آنٹی سر ہوتے تو بہتر ہوتا. محترمہ نے کہا آنٹی نہیں میرا نام سپنا ہے. مجھے میرے نام سے بلائیے. وہ اس وقت گھر پہ نہیں ہیں. میں جو فیصلہ کروں گی انہیں قبول ہوگا.صوفہ پہ دونوں بیٹھ گئے اور محترمہ سپنا بھی. انکی پہلی شرط تو یہ تھی کہ فیملی ہوگی تبھی ہم روم دیں گے. شنکر نے کہا جی ہاں فیملی ہے. ہم لوگ پڑھنے کی غرض سے یہاں آئے ہیں.دوسری شرط یہ ہے کہ کرایہ ایڈوانس میں ادا کرنا ہوگا اور پچاس ہزار ڈپوزٹ. شنکر نے ایڈوانس کرائے والی بات پہ اعتراض کیا تو جواب ملا کہ یہ شرائط منظور ہیں تو کل شفٹ ہوسکتے ہیں ورنہ کوئی بات نہیں. کوئی اور مکان دیکھنے کے لیے آپ آزاد ہیں.شنکر اور ذاکر گھر سے نکل ہی رہے تھے کہ گھر کے مالک کی آواز آئی. وہ اپنی بیوی سپنا کو ڈانٹ رہے تھے کہ ڈپوزٹ اتنا زیادہ مناسب نہیں ہے اور ایڈوانس کرایہ تو کسی بھی حال میں مناسب نہیں ہے..بیوی نے کہا پچھلے ماہ کا واقعہ آپ بھول گئے ہونگے میں زندگی بھر نہیں بھول پاؤنگی. بچہ ہمارا زنددگی اور موت کے بیچ میں تھا. ہاسپٹل پہنچے تو کہا گیا پہلے ایک لاکھ ڈپوزٹ کیجئے. یہی لوگ کل ڈاکٹر بنیں گے تو کیا بخشیں گے. یہ بھی ڈپوزٹ جمع کرائیں گے.ذاکر اور شنکر نے پوری بات سن لی اور پختہ ارادہ کیا کہ ڈاکٹر ہی بننے آئے ہیں. امتحان پاس کریں گے. داخلہ لیں گے. ایک ہونہار ڈاکٹر بنیں گے اور سماج میں ایسا کردارکریں گے کہ لوگ ہم کو بطور مثال پیش کریں.انکو تو جس طرح کا گھر چاہیے تھا بالکل خواہش کے مطابق تھا. اس لئے انکار کرنا مشکل تھا. کڑوا گھونٹ سمجھ کے پی لیا. شام کو اے ٹی ایم سے پیسے نکالے اور محترمہ سپنا کے حوالے کردیا. دوسرے دن انکے مکان میں شفٹ ہو گئے.دونوں نے میڈیکل کی کوچنگ کرنی تھی. اس کے لیے کوچنگ سینٹر گئے. کوچنگ والوں نے کہا پوری فیس پہلے جمع کرنی ہوگی. ہاں اطمینان کے لیے ایک دن بنا فیس ادا کئے کلاس کرکے دیکھ لیں.کلاس کیا، پسند آیا، فیس ادا کیا اور جوائن ہو گئے. اللہ کا خاص کرم ہوا کہ میڈیکل کالج میں داخلہ بھی مل گیا.میڈیکل کی تعلیم مکمل کرکے ایک ہاسپٹل سے وابستہ ہوگئے. وہاں دیکھا کہ امیر ہو کہ غریب ایمرجینسی کیس ہو یا نارمل. پہلے پیسے ایڈوانس جمع کراتے ہیں پھر علاج شروع ہوتا ہے.دونوں کو یہ عمل پسند نہیں آیا. ہاسپٹل کے ایڈمنسٹریشن سے پوچھا کہ یہ طریقہ تو صحیح نہیں ہے کہ بنا علاج شروع کئے ہم کسی سے پیسے لیں. اسٹاف نے کہا مالک کا حکم ہے آپ کو کوئی اعتراض ہے تو انہیں سے کہئے. دونوں ہاسپٹل کے مالک ڈاکٹر دیپک کے پاس پہونچے اور وہی سوال دہرایا. ڈاکٹر دیپک نے جواب دیا… محترم کوئی کام بنا ایڈوانس دئے کہاں ہوتا ہے…؟ہم کو زمانہ طالب علمی میں گھر کرائے پہ لینا تھا تو مکان مالک کو کرایہ ایڈوانس میں دینا پڑا، کوچنگ کے لیے گئے تو فیس ایڈوانس، کالج میں ایڈمیشن لیا تو بھی پورے بارہ ماہ کی فیس ایک ساتھ. تو ہم اگر پہلے ڈپوزٹ لے رہے ہیں تو کیا جرم ہے.ڈاکٹر ذاکر نے کہا سر یہاں بات جرم کی نہیں ہے بلکہ انسانیت کی ہے. سر ہاسپٹل میں جو اسٹاف کام کررہے ہیں کیا انکو مزدوروی ایڈوانس میں دی جاتی ہے..؟ نہیں نا. سر جو آپکے ساتھ ہوا وہی ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ہم اس کا ری ایکشن کریں. ہمیں تو انسانیت کا درس دیا گیا ہے. ہم لوگوں کے زخموں پر مرہم لگاتے ہیں. لیکن ہمارے اس عمل سے ہی کتنے لوگ برا بھلا کہتے ہیں اور کتنے تو اسی سے پریشان ہوکے پھر اپنے ماتحت کو پریشان کرتے ہیں.ڈاکٹر دیپک نے کہا یہاں کا جو نظام وہی رہے گا. آپ کو نہیں اچھا لگتا ہے تو کہیں اور دیکھ لیجیے.یہ ری ایکشن کا مزاج تو بہت خطرناک ہے. اسی طرح ہرکسی نے سوچنا شروع کردیا تب تو یہ سماج تباہی کے دہانے پہ پہنچ جائے گا. کیا مکان مالک کی غلطی ہے…؟ کیا ہاسپٹل کی غلطی ہے..؟ یہ تو وہی بات ہوگئی کہ پہلے مرغی یا انڈا…اس میں زیادہ دماغ لگانے کے بجائے کہ غلطی کس کی ہے دونوں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ کیا کیا جائے…ڈاکٹر ذاکر نے کہا اپنا ہاسپٹل شروع کرتے ہیں. شنکر نے کہا پیسے کہاں سے آئیں گے.؟ ذاکر نے ایک اچھی نیت کے ساتھ ایک کام کرنا تو اللہ کوئی نہ کوئی راستہ نکالے گا. پہلے پختہ ارادہ تو کرو… تبھی اچانک خیال آیا کہ بہت سارے مریضوں نے جن کا بروقت اور صحیح علاج کیا گیا ہے ان لوگوں نے کہا تھا سر مستقبل میں ہمارے لائق کوئی کام ہوگا تو بتائیے گا. اسی پہ محنت شروع کرتے ہیں.ایسے افراد کی ایک لسٹ بنائی گئی اور اس میں کچھ بڑے امیر لوگ بھی ملے. کچھ گورنمنٹ آفیسر بھی. سب کو مدعو کرکے ایک پراجیکٹ پیش کیا گیا. لوگوں کو بہت پسند آیا. ہاسپٹل بنایا گیا اور بنا ڈپوزٹ لیے علاج شروع ہوا. جو مریض ڈاکٹر دیپک کے یہاں جاتے تھے وہ سب ڈاکٹر شنکر و ڈاکٹر ذاکر کے ہاسپٹل منتقل ہو گئے. ملک کے کونے کونے میں لوگوں کو معلوم ہونے لگا کہ اس طرح کا ایک ہاسپٹل شروع کیا گیا ہے. تو دوسرے شہروں کے بہت سارے لوگوں نے آفر کیا کہ ہمارے یہاں بھی شروع کیجئے.دونوں نے حقیقت حال کا جائزہ لیا اور اس نتیجہ پہ پہنچے کہ جس طرح کی ڈیمانڈ ہے یہ تو ہم لوگ پورا نہیں کر پائیں گے. اس کے لیے ایک بڑی ٹیم کی ضرورت ہے. ایک میڈیکل کالج قائم کیا جائے. اس کالج میں تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق کی تربیت دی جائے….آئیے ہم بھی غور کریں کہ ہمارا بھی کوئی عمل کسی کے ری ایکشن میں تو نہیں ہے

Please follow and like us:

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »