تجارت کیوں اور کیسے.

چھ روزے پورے ہوئے. لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہفتہ اور دن کا پتہ ہی نہیں چل رہا ہے. کب سنڈے کب منڈے کچھ خبر نہیں.ہر سال رمضان سے پہلے بڑے نسخے آتے تھے اس سال نہیں آئے. جیسے سحری میں فلاں چیز کھا پی لیں دن میں بھوک پیاس کا احساس نہیں ہوگا. وغیرہ وغیرہ.. گفتگو کا دوسرا موضوع ہوتا تھا آٹھ رکعتیں یا بیس؟ تیسرا موضوع شبینہ تراویح. کوئی اس کے حق میں کوئی خلاف. تین دن میں قرآن ختم پھر پورے رمضان فرصت. اس کے بعد تراویح کے وقت مارکیٹ کی زینت.(شبینہ تراویح کا رواج شہروں میں ہے)اس سال چونکہ تراویح مسجد یا میدان یا کسی گلی و محلہ میں نہیں ہورہی ہے اس لیے آٹھ اور بیس پہ تحریریں کچھ خاص نہیں آئیں. شبینہ کا بھی آپشن نہیں ہے بلکہ حفاظ تو بہت سارے مشوروں اور فرمان سے بچ گئے کہ تھوڑا آرام سے پڑھائیں، رکوع سجدے بہت لمبے ہورہے ہیں یا چھوٹے آج تو ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت لگ گیا…….. مارکیٹ کے تعلق سے ایک میسیج خوب آرہا ہے کہ عید کی خریداری نہ کریں کیونکہ بنیا اور مارواڑی سامان بناتے ہیں اور مسلمانوں کو بیچ کر پیسے کماتے ہیں جبکہ سبزیاں خریدنے کی بات آتی ہے تو کہتے ہیں مسلم سبزی فروش سے سبزی نہ لینا.عید کی خریداری والے میسیجز پڑھ کر مجھے احساس ہوتا ہے کہ انگور کھٹے والی کہاوت اس پہ صادق آتی ہے. ارے بھائی جب پیسے ہی نہیں ہیں تو خریداری کہاں سے کریں گے…؟ان میسیجز میں ایک بات کہی جاتی ہے کہ مارواڑی بیچ کے ہم سے منافعہ کماتا ہے.اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے تجارت کی ہے اور تجارت کو پسند کرتے تھے. آپ نے فرمایا دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے. لیکن ہمارے علماء جمعہ میں خطاب فرمائیں گے تو یہ بتائیں گے کہ اللہ کے رسول چٹنی روٹی کھاتے تھے اور پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے اور چمچماتا کرتا پاجامہ نیل چڑھا ہوا پہن کر خطاب کررہے ہونگے. بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تجارت پہ گفتگو کریں اور مسلمانوں کو رہنمائی کریں کہ تجارت کیا چیز ہے. اس کی کتنی اہمیت و افادیت ہے..مسلمانوں کو تراویح میں رکعتیں، آمین بالجہر یا آمین بالسر، رفع الیدین کرنا ہے یا نہیں کرنا ہے، دیوبندی ہو یا بریلوی یا کوئی اور مسلک..؟ ان جیسے نہ جانے کتنے مسائل ہیں جن پہ سالہا سال سے اچھی خاصی اینرجی لگائی جارہی ہے اور کتابوں پہ کتابیں لکھی اور چھاپی جا رہی ہیں. وہ مسئلہ تو حل نہیں ہوا. شاید قیامت تک حل ہو بھی نا. آمین بالجہر والوں سے پوچھئے کہ آمین بالسر والے کی نماز ہوگی یا نہیں تو وہ کہے گا نماز تو ہوجائے گی. اب ضرورت اس بات پہ لب کشائی کرنے کی ہے کہ دینے والا ہاتھ کیسے بنیں…؟مارواڑی کی دوکان سے ہم اور آپ کب تک نہیں خریدیں گے. ایک ماہ دو ماہ پھر تو خریدیں گے. کیون نہ اس پہ گفتگو ہو ہم خود اس میدان میں آگے آئیں. تعلیم اور تجارت میں اپنا لوہا منوائیں. لُولُو کا اس ملک میں صرف ایک مال ہے وہ بھی کوچی کیرالا میں. باقی سارے مال جی سی سی (عرب ممالک) میں ہیں. وہ بھی ایک مسلم تاجر ہیں. اس مہاماری میں کروڑوں روپے کی مدد کی ہے انہوں نے. اس مثال سے اشارہ یہ ہے کہ اگر ہم تجارت کریں تو صرف یہی ملک اور اسکی مارکیٹ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا ہے. آج بنگلہ دیش کافی تیزی سے ترقی کررہا ہے. ہندوستان پاکستان کے خلاف لاکھ چیخ پکار کرے لیکن بہت ساری چیزیں پاکستان سے ہندوستان امپورٹ کرتا ہے.چھوٹے پیمانہ پہ تجارت کرنے پہ بے شمار مسائل ہوتے ہیں. لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ان مسائل کا حل نہیں ہے. گورنمنٹ اور گورنمنٹ کے علاوہ بے شمار لوگ اور ایجنسیاں ہیں جو تجارت کے لئے رہنمائی کرتے ہیں. شرط ہے کہ ہم تجارت کرنے کے لیے تیار تو ہوں.تجارت شروع کرنے کے لئے عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ پیسے کا ہوتا ہے حالانکہ تاجروں کو ٹریننگ دینے والے کہتے ہیں کہ تجارت کے لئے سب اہم دو باتیں ہیں. نمبر ایک آئیڈیا نمبر دو عزم وحوصلہ.دوسرے کچا مال کہاں سے لیا جائے اور اس کو کم سے کم دام میں کیسے حاصل کیا جائے. اس کے بعد کا مرحلہ ہے کہ مال کہاں بیچا جائے. یہاں اب وہ مرحلہ آتا ہے کہ جو لوگ پیغام پہ پیغام دے رہے ہیں کہ مارواڑی سے نہ خریدیں وہ یہ مہم چلائیں کہ معاشی لحاظ سے مسلمانوں کو کیسے فائدہ پہنچایا جائے….. بڑے شہروں کی فیکٹریوں کا سروے کیجئے تو آپ پائیں گے کہ کسی بھی میدان میں مال بنانے میں اہم کردار مسلم مزدوروں کا ہی ہوتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اصل ملائی مارواڑی کھاتا ہے.تجارت شروع ہونے کے بعد وہ ترقی کیوں نہیں کرتی ہے اس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں.سب سے پہلی بات یہ کہ ایک طالب علم اگر بی ٹیک کررہا ہے. اپنے آخری سیمسٹر کا امتحان دیا نہیں کہ افراد خانہ و رشتہ دار ایک بھاری بھرکم تنخواہ والی جاب کی امید لگا لیتے ہیں. ایسا کرنے سے وہ طالب علم ذہنی پریشانی کا شکار ہوتا ہے. کیونکہ اس کو یہ خوف ہر وقت ستاتا ہے کہ آج کے انٹرویو میں اگر سلیکشن نہیں ہوا تو گھر والے کیا کہیں گے.جاب مل جاتی ہے تو اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اس نئے فرد پہ پورے گھر کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے. اگر والد کسی جاب سے جڑے ہیں تو وہ بھی سوچتے ہیں اب تو بیٹا کمانے کے لائق ہو گیا ہے اب مجھے آرام کرنا چاہئے. اب آپ سوچیں کہ کیا ہوتا ہے. اس کی تنخواہ آنے سے پہلے ہی خرچ کا حساب کتاب بن جاتا ہے.یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ گھر والوں کا عام مزاج ہوتا ہے کہ بچہ اپنی پوری تنخواہ گھر بھیج دے. یعنی اگر اس نے کوئی خواب دیکھنا ہے تو اسے وہ حق حاصل نہیں ہے.جاب سے نکل کر کسی طرح تجارت میں آگیا تو بھی مسئلہ وہی ہوتا ہے کہ مورل اور اخلاقی سپورٹ نہیں ملتا ہے. بلکہ کچھ لوگ تو انتظار میں ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھنا شروع تو کیا ہے لیکن زیادہ سے زیادہ چھ ماہ. پھر کام بند کرکے بھاگے گا جبکہ والدین کو، بھائی بہنوں کو، رشتہ داروں اور دوست احباب کو چاہیے کہ اس نو وارد تاجر کو حوصلہ دیں پھر دیکھیں رزلٹ کیا نکلتا ہے. ایک نیا تاجر اگر کسی سے پیسے مانگ لے گرچہ اس کا ماضی بہت صاف شفاف ہو. معاملات کا کھرا ہو پھر بھی لوگ پیسہ اکاؤنٹ میں رکھے رہیں گے لیکن اس کی وقتی مدد کرنے سے کتراتے ہیں. ایسا دشمنی میں نہیں کرتے ہیں بلکہ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں. انکو یہ بھروسہ نہیں ہوتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تجارت نہ چلے اور پیسے ڈوب جائیں تو ہمارے پیسے واپس کیسے ملینگے. دوسری طرف اگر کوئی سعودی دبئی جارہا ہو اسکو ویزہ کے لئے پیسے چاہیے دس لوگ تیار ہوجائیں گے کہ چار چھ ماہ میں تو واپس مل ہی جائے گا.تجارت میں تھوڑا بہت منافع ہونے لگتا ہے تو پھر گھر والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ منافع کے پورے پیسے گھر منتقل کردے. کبھی کسی کی طرف سے یہ پیشکش نہیں ہوتی ہے کہ تجارت میں تم سیٹ ہوگئے ہو اسکو اور بڑا کرو. ہمیں ابھی پیسے نہیں چاہئے بلکہ تمہیں کچھ ضرورت ہو تو بتانا. تجارت کو خوب بڑا کرو. الٹا نئے نئے پروجیکٹ سامنے آتے رہیں گے. مثلاً گھر بنوانا ہے. فلاں کی شادی کرنا ہے. وغیرہ وغیرہ..جس کے گھر سے خواہش نہیں ہوتی ہے وہ خود اس فکر میں لگ جاتا ہے کہ زمین خرید لی جائے، ایک فلیٹ لے لیا جائے، فلیٹ ہوگیا تو ایک دوکان خرید لیا جائے، فلیٹ دوکان ہوگیا تو مزید کے چکر میں تجارت کو بڑا نہیں کرپاتے اور پھر وہی شکایت ہوتی ہے کہ پوری مارکیٹ پہ مارواڑیوں کا قبضہ ہے. جبکہ آپ خود جائزہ لے لیں کہ ایک فلیٹ جو چالیس لاکھ کا ہے اس کا کرایہ بمشکل سات آٹھ ہزار یا دس ہزار ہوگا. چالیس لاکھ کا فلیٹ اگر ایسا شخص لیتا ہے کہ تجارت سے چالیس لاکھ نکالنے سے تجارت پہ کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا تو اسکو ضرور لینا چاہیے لیکن جسکی تجارت اتنی بڑی نہیں ہے اس کو پہلے تجارت بڑی کرنا چاہیے. لیکن کیا کریں اس سماج کا! یہ سماج بار بار یہ کہتا ہے کہ فلاں شخص کیا کرتا ہے دس سال ہوگئے ایک فلیٹ تک نہیں خرید پایا.ایک دن ایک دوکان کی تلاش میں ہم ایک مارواڑی کے پاس گئے. کیونکہ ہم کو بھی اسی مارکیٹ میں دوکان دیکھنا تھا. ہم نے اس سے پوچھا کہ اس مارکیٹ میں دوکان کا کرایہ کیا چل رہا ہے. اس نے بتادیا. ہم نے اس سے دوسرا سوال کیا کہ آپ کرایہ پہ ہو یا آپ کی اپنی دوکان ہے. اس نے جواب دیا کیا بھائی یہ بیوقوفی کون کرنے جائے گا. اس دوکان کی قیمت ستر لاکھ ہے. کرایہ سترہ ہزار ہے ہمارے پاس ستر لاکھ ہیں نہیں اور ہوتے تب بھی ستر لاکھ تجارت میں لگائیں گے تو ہرماہ لاکھ دو لاکھ کما لیں گے. پھر سترہ ہزار جیسے کئی کرائے ادا کرسکتے ہیں. ایسا لگتا ہے کہ ہمارا ایمان کمزور ہوتا ہے اللہ پہ بھروسہ ہی نہیں ہوتا کہ تجارت کررہے ہیں تو کامیاب تو ہونگے ہی بس شرط ہے کہ اس کو اسی طرح کیا جانا چاہیے جیسا اسے کرنے کا حق ہے. مثلاً ایک اے سی ٹیکنیشن ایک انتہائی غریب آبادی والے گاؤں میں جاکے اسلئے دوکان شروع کرے کہ دوکان کا کرایہ کم دینا ہوگا جبکہ وہاں لوگ اے سی والے ہیں ہی نہیں. ہروقت دوکان کھول کے الرٹ رہے. وہی ٹیکنیشن بلکل صحیح جگہ پہ دوکان شروع کرے لیکن کام کے وقت جاکے میدان میں کرکٹ کھیلے یا دوستوں کے ساتھ موبائل میں لوڈو کھیلے ایسی صورت میں دونوں لوگ تجارت میں ترقی نہیں کرپائیں گے.کچھ لوگوں کی ترجیحات کا مسئلہ ہوتا ہے. اس کو ایک مثال سے سمجھ لیجیے کہ آپ کو فیکٹری کے لیے ایک مشین کی خریداری کی بہت سخت ضرورت ہے. اگر مشین آجائے تو تجارت ڈبل ہوجائے گی. ایسی حالت میں مشین خریدنے کے بجائے کار خرید لے. تو منافع بڑھنے کے بجائے ایکسٹرا خرچ کا ایک بوجھ اور بڑھ گیا. آپ کے پاس صرف تین ہزار روپے ہیں. کسی سفر پہ جانا بہت ضروری ہے. ہمیشہ اے سی کا سفر کیا ہے. اے سی کا کرایہ ڈھائی ہزارروپے ہے سلیپر کا کرایہ سات سو روپے ہے. تو حکمت کی بات یہی ہوگی کہ اس بار ریکارڈ بنانے کے چکر میں پچیس سو خرچ کرنے کے بجائے سلیپر میں ہی سفر کرلیا جائے. آپ نے دیکھا ہوگا ایک بڑی تعداد میں ایسے افراد موجود ہیں کہ ماہ میں دس بیس ہزار کمانے والے ایک ایک لاکھ کا موبائل خرید لیتے ہیں. اس طرح کے مزاج رکھنے والوں کا تجارت میں ترقی کرنا بہت مشکل عمل ہے.ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو یہ سوچتی ہے کہ بس ہمارے باپ دادا نے یہی کیا ہے ہم بھی یہی کریں گے. مثلاً کسی زمانہ میں لکڑی کے صندوق استعمال ہوتے تھے. جن بزرگوں نے اپنی روش نہیں بدلی حالات کی تبدیلی اور مارکیٹ کی ضرورت کے حساب سے اپنے پروڈکٹ اور ورکنگ اسٹائل کو نہیں بدلا وہ مارکیٹ سے غائب ہوگئے. بڑے ناموں میں نوکیا اور یاہو کو دیکھ سکتے ہیں. مارکیٹ کی ضرورت اور گراہک کی خواہش کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے. ہم کو صرف سفید پسند ہے. جبکہ خریداروں کی بڑی تعداد رنگ برنگے چاہتی ہے اور ہم یہ سوچ کے بیٹھیں کہ چونکہ ہم کو سفید پسند ہے اس لیے ہم کلر والا نہیں بیچیں گے تو کیسے کام چلے گا.ہم میں سے ایک بڑی تعداد کمفرٹ زون میں رہنا پسند کرتی ہے. جسے کسی بزرگ سے پوچھئے کہ چچا محترم کیا ہوا آپ نے تجارت سے کنارہ کشی کیوں اختیار کرلیا… ؟ جواب ملے گا کیا بیٹا کب تک محنت کریں گے. بچے پڑھ لکھ لئے. سب کی شادی کردیا. گھر دوکان کا انتظام ہوگیا اور کیا چاہیے. مطلب مقصد زندگی اتنا محدود اور ایک خاص خول میں رہنے والے جنکو تجارت کو فروغ دینے کی خواہش ہی نہیں ہے وہ تجارت میں کیسے ترقی کریں گے.چونکہ مقصد بہت چھوٹا اور محدود ہوتا ہے اس لیے نئے آئیڈیاز پہ غور نہیں کرپاتے ہیں اور دس سال پہلے جہاں تجارت تھی دس سال بعد بھی وہیں رہتی ہے.ایک شخص ایک کاروبار شروع کرتا ہے. پیسے اور مارکیٹ کی دقت ہوتی ہے. مثلاً چار مزدور ہیں انکو تنخواہ بھی دینی ہے اور ماہ کے آخر میں کرایہ بھی ادا کرنا ہے. تو کارخانے دار کا سب سے بڑا سر درد یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح جو ضروری اخراجات ہیں وہ نکل جائیں. مارواڑی اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں. ایسے کارخانے دار کو تلاش کرتے ہیں ان سے کام کرواتے ہیں اور ایسی قیمت طے کرتے ہیں کہ کارخانے دار کے بمشکل تمام صرف ضروری اخراجات ہی نکل پاتے ہیں. اس کو یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں مل پاتا ہے کہ وہ مارکیٹ اور مارکیٹ کی ڈیمانڈ کو پڑھ سکے اور پروڈکٹ کی مارکیٹنگ کرسکے. اس میں دو مزاج کے لوگ پائے جاتے ہیں ایک وہ جن کے پاس موقع ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں کودیں اور بڑا منافع کمائیں لیکن وہ کمفرٹ زون سے نکلنا نہیں چاہتے اور دوسرے وہ جو کودنا تو چاہتے ہیں لیکن وسائل اتنے محدود اور مسائل اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کرپاتے ہیں. اسلئے مارواڑیوں سے محاز آرائی کرنی ہے تو وہاٹس آپ پہ میسیجز سے نہیں کام چلے گا بلکہ میدان عمل میں کودنا پڑے گا جو جنگ جہاں لڑی جانی چاہیے وہیں لڑنا ہوگا اور ان سے اس جنگ میں ان تمام چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے معرکہ آرائی کرنی ہوگی….تاجر کا مورل سپورٹ کیجئے. اس کو حوصلہ دیجئے.والدین کو چاہیے کہ کچھ دن کفایت شعاری سے کام چلائیں بچے کو تھوڑی ترقی کرنے دیں.دوست رشتہ دار جن کے پیسے اکاؤنٹ میں پیسے بیکار پڑے ہیں وہ دیکھیں جو مناسب فرد دکھے اسکو کچھ شرائط کے ساتھ پیسے دیں وہ بھی کمائے اور آپ بھی اس کے منافع میں کچھ حصہ دار بنیں.تاجر مارکیٹ کی ضروریات کو سمجھے، پوری مستقل مزاجی اور اللہ پہ بھروسہ کے ساتھ نئے نئے آئیڈیاز کو آزمائے.دوکان مکان بعد میں خریدیں پہلے تجارت کو بڑا کریں.خود بھی دینے والا ہاتھ بنیں اور دوسروں کو بھی دینے والا ہاتھ بننے میں مدد فراہم کریں.مارکیٹ میں پتہ کریں کہ آپ کی قوم کے کون سے برانڈ ہیں کوشش کریں کہ وہی خریں.برانڈ بنائیں اور قوم کو برانڈ پروڈکٹس کو بڑا بڑا برانڈ بننے میں مدد فراہم کریں. مدد کی شکل یہ ہے کہ کوشش کریں اپنی قوم کے برانڈ استعمال کریں.اپنوں کے ساتھ تجارت میں نیٹورکنگ کریں.ترجیحات طے کریں.صرف تاریخ کے پنوں میں لکھنے اور پڑھنے سے کیا فائدہ کہ ہندوستان میں اسلام مسلم تاجروں کے ذریعہ آیا.نوٹ : یہ تحریر رمضان میں لکھی گئی تھی. اس لئے رمضان اور تراویح کا تذکرہ ہے.

292912 Comments8 SharesLikeCommentShare

Please follow and like us:

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »